پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے ’گرے لسٹ‘ میں شامل کر دیا ہے۔ اس ادارے کے مطابق پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور کالے دھن کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے۔
اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے ٹی ایف نے یہ فیصلہ پیرس میں جاری اجلاس میں کیا ہے جہاں پاکستان کی نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی سربراہی میں پاکستانی وفد بھی موجود ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے اس سال فروری میں پاکستان سے کہا تھا کہ اسے ان دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت کے امکانات کو کم تر کرنا ہو گا جو مبینہ طور اس کی سرزمین پر سرگرم ہیں۔ اس اجلاس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ کی تحقیقات کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کیے اور ایف اے ٹی ایف کے رکن ملک امریکا اور جرمنی سمیت امریکا کے یورپی اتحادیوں نے پاکستان کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔
اب ایف اے ٹی ایف کی جانب سے یہ اعلان اس ہفتے پاکستان کی جانب سے ایک مفصل ایکشن پلان پیش کیے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔ اس پلان میں پاکستان نے چھبیس پوائنٹ پیش کیے، جن کے ذریعے وہ عسکریت پسند گروہوں، جن میں جماعت الدعوہ بھی شامل ہے، ان کی مالی معاونت کو روکے گا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈین ڈاکٹر اشفاق احمد کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کی توقع تھی یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے، ’’امریکا کی جانب سے رکن ممالک پر پاکستان کے خلاف فیصلہ کرنے کا دباؤ ڈالا گیا تھا۔‘‘
ڈاکٹر اشفاق احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’پاکستان نے 26 نکات پر مشتمل ایک مفصل پلان پیش کر دیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ اس پلان پر عمل در آمد کرے۔ اس کے پاس پندرہ ماہ تک کا وقت ہے اس کے بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ نے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر احمد کے بقول پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اس پلان کے مطابق اقدامات اٹھائے گا اور اس پر عمل در آمد کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اس کا نام گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔
اسی طرح پاکستان کے ایک معروف ماہر اقتصادات ثاقب شیرانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’تکنیکی اعتبار سے گرے لسٹ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو متاثر نہیں کرتی۔ پاکستان ماضی میں بھی 2012 سے 2015 تک گرے لسٹ میں رہ چکا ہے اور اس دوران پاکستان کو کوئی بہت خاص مالی نقصان نہیں پہنچا۔‘‘ شیرانی کی رائے میں یہ تو ایک مثبت پہلو ہے لیکن دوسری جانب گرے لسٹ میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان ایک غیر ملکی سرمایہ کار کی نظر میں ’ہائی رسک‘ ملک بن جاتا ہے اور ساتھ یہ خدشہ بھی رہے گا کہ کہیں امریکا کے مزید دباؤ سے پاکستان کو ’بلیک لسٹ‘ میں نہ شامل کر دیا جائے۔ اس وجہ سے کچھ حد تک پاکستان کے اقتصادی امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
شیرانی کہتے ہیں کہ بظاہر اسلام آباد انتظامیہ نے ایف اے ٹی ایف کے سامنے ایک بہت ہی جامع منصوبہ پیش کیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو ختم کرنے کے لیے انتہائی پر عزم ہے۔ شیرانی نے کہا، ’’اگر ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کے پیچھے سیاسی عزائم نہ ہوتے تو عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی جانب سے پیش کیے جانے والے نکات کے بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ نے نکال دیا جاتا۔‘‘
برسلز میں ڈی ڈبلیو اردو کے نمائندے خالد حمید فارقی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کافی اقدامات کیے ہیں لیکن امریکا اور یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ پاکستان قوانین کا اطلاق نہیں کرتا ۔ فاروقی کی رائے میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کی بنیادی وجہ کالعدم تنظیموں کے خلاف پاکستان کا کمزور ایکشن ہے۔ ان کے بقول جہاں پاکستان کو کالعدم تنظیموں کے خلاف بھر پور ایکشن لینا چاہیے وہاں انہیں مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فاروقی کہتے ہیں،’’ مغربی ممالک 2015 سے پاکستان کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘
صحافی خرم حسین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’یہ تو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا لیکن ایف اے ٹی ایف کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت لیے جانا جب پاکستان میں ایک نگران حکومت قائم ہے، اس کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔‘‘ حسین کہتے ہیں کہ اب عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والے نو منتخب حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرح ایکشن پلان میں پیش کیے گئے نکات پر عمل در آمد کرتی ہے تاکہ جلد از جلد پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالے جانے کو ممکن بنایا جا سکے۔