گبرئیل گارسیا مارکیز سے صباء تک – برزکوہی

291

گبرئیل گارسیا مارکیز سے صباء تک

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

لکھنے سے پہلے لکھنے کے بارے میں گبرئیل گارسیا مارکیز کے ان الفاظ کے ساتھ لکھنا شروع کرتا ہوں، مارکیز کہتا ہے کہ “لکھنا اتنا ہی مشکل ہے، جتنا میز بنانا دونوں صورتوں میں آپ حقائق سے دوچار ہیں اور ہمیشہ حقائق جو لکڑی کی طرح سخت ہوتے ہیں۔ دونوں ٹیکنک اور ٹرکس سے بھرے پڑے ہیں، بنیادی طور پر بہت کم جادو (معجزے سے )اور زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور جیسا کہ شاید پروست نے کہا ہے لکھنا محض دس فیصد وجدان اور نوے فیصد محنت یا پسینہ بہانا ہے۔”

دراصل حقیقی و معیاری فن تحریر سے نابلد لکھاری ہوتے ہوئے، ذاتی حوالے سے کسی شہید کے بارے میں کچھ لکھنے سے ایک انجان قسم کی گبھراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ گبھراہٹ بھی شاہد حقیقت پسندی ہے اور ملتے جلتے محسوسات کا ردعمل ہے۔ کسی شہید کے بارے میں لکھنا، انتہائی سخت ہوتا ہے، اس وقت جب آپ کو ذاتی، قومی، جذباتی، خونی، علاقائی اورتنظیمی رشتوں کو بالائے طاق رکھ کر بطور رسم یا جذباتیت کے بجائے حقائق اور غیرجانبداری کے بنیاد پر کچھ لکھیں۔ ایک تو شہید کے کردار کے ساتھ انصاف اور نا انصافی کا پیچیدہ معاملہ اور دوسرا شہید کی مکمل حقیقت سے کس حد تک علم و آگاہی، تیسری سب سے اہم کسی بھی شہید کیلئے کچھ خصوصیات، صفت و ثناء خود بیان کرنا یا پھر حقیقت کی بنیاد پر شہید میں وہ خصوصیت اور صفت اس کی کردار کے ساتھ وابستہ کرنے کے باوجود، کیا میں خود ان خصوصیات اور صفات کو صرف اچھا سمجھتا، جانتا اور بیان کرتا ہوں یا پھر عملاً اپناتا بھی ہوں؟ کس حد تک شہید کے نقشِ قدم کو عملاً آگے بڑھا رہا ہوں؟ کیا شہید نے اپنی ذندگی میں کسی جگہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میرے شہادت کے بعد آپ کی قومی ذمہ داری یہ ہے کہ صرف بطور کہانی و افسانہ نگار کے حیثیت سے میرا صفت و ثناء خوانی کرنا؟ چند کاغذ کے صفحات کو سیاہ کرکے کچھ لکھنا، کچھ بیان کرنا؟ یا پھر تمام شہداء کی ہمیشہ یہی خواہش و ارمان رہا ہے کہ انکے مقصد، کام و مشن کو عملاً آگے لیجانا چاہیئے؟

اب میں سوچتا ہوں میرا اوقات کیا کہ میں صباء جیسے عالم اور متحرک و عملی انسان کے بارے میں کچھ لکھوں یا اس کی صفت خوانی کروں۔ کیا صباء کا جہد عملی کردار اور عظیم رتبہ شہادت پر فائز ہونا، میرے قلم کے نوک سے چند بے ربط کلمات کا ابھی تک محتاج ہے یا گر میں نہیں لکھوں گا تو پھر تاریخ عالم میں صباء کا کردار نا مکمل ہوجائیگا؟

ان تمام تلخ سچائیوں کے گھیرے میں مقید پھر بھی حسب رسم و روایات، حسب معمول قلم اور کاغذ کو ایک طرف رکھنے کے بجائے، ضرور کچھ لکھوں گا، اس لیئے نہیں کہ صباء محتاج ہے، صباء انتظار میں ہے، صباء کی روح کو تسکین ملے گی یا پھر میرے قومی ذمہ داری پورے ہونگے، ضمیر مجھے سلام پیش کریگا یا لوگ صباء سے لاعلم ہیں میں انھیں علم عطاء فرماؤں گا۔ نہیں! سب صباء کو جانتے ہیں لیکن صباء کو مکمل کوئی نہیں جانتا، میں بھی نہیں جانتا ہوں، لوگ بھی نہیں جانتے، بہت کم لوگ صباء کی زندگی و کردار کے چند ایک پہلووں کو جانتے ہونگے۔ میں بھی ایک پہلو ہی جانتا اور سمجھتا ہوں، جو زندگی کے دیگر شعبوں کے علاوہ خاص کر تحریک آزادی کیلئے انتہائی اور بہت ضروری ہے، اس پہلو کو میں کس حدتک کیسے واضح اور جامع انداز میں بیان کرسکتا ہوں، دوسروں کو سمجھا سکتا ہوں اور خود اس پر کس حد تک عمل کرسکتا ہوں، یہ میرے لیئے سخت اور مشکل ترین گھڑی ہے، لکڑی سے بھی زیادہ سخت لوہے کی طرح۔

صباء عالم تھا، صباء بہادر تھا، صباء بے خوف و بے غرض انسان اپنی ذات سے مکمل پاک ایک قوم دوست، انسان دوست، بلوچی زبان کی دوستی میں اور قومی آزادی کیلئے ایک جنونی عاشق تھا۔ لیکن صباء کی زندگی کا ایک اہم اور سب سے زیادہ متاثر کن اور خوبصورت پہلو اپنی انفرادی شہرت کی سوچ سے بے خبری تھی، جو صباء کو ہمیشہ تاریخ میں صباء بنائے رکھتا ہے۔

سچائی کے بنیاد پر پرکھا یا تجزیہ و تحقیق کیا جائے، تو کیا کوئی بھی انسان دولت، شہرت اور طاقت کو ہوس اور خواہش کی بھوک سے بے خبر اور کنارہ کش ہوسکتا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں، لیکن جہاں قوم وطن انسانیت اجتماعی سوچ و فکر اہم ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہوں، پھر وہاں ان چیزوں کی اوقات شدت سے نہیں بلکہ کمزور شکل میں ہونگے، ذہن کے ضرور ایک کونے میں موجود ہونگے لیکن ذہن پر سوار نہیں ہونگے۔

صباء میں یہ خواہش اور پیاس کس حد تک اندورونی طور پر موجود تھا یا نہیں تھا کم تھا زیادہ تھا، مضبوط شکل میں تھا یا کمزور شکل میں تھا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔ اس لیئے میں نہیں کہہ سکتا ہوں، شاید وہ سمجھنے اور دیکھنے کا پیمانہ میرے پاس ابھی تک نہیں ہے، میں اگر کچھ کہوں تو انصاف نہیں کرسکوں لیکن جہاں تک میں نے صباء کو صباء کے کرداروعمل اور فیصلوں کو دیکھا، وہ شہرت کی بھوک سے مبرا انسان تھا، ذات سے پاک انسان تھا، وہ شہرت و دولت اور طاقت کی ہوس سے نفرت کرتا تھا۔

جس طرح مشہور و معروف صحافی پیٹر ایچ سٹون نے گبرہیل گارسیا مارکیز سے پوچھا کہ آپ کیوں شہرت کو اتنا برا سمجھتے ہیں، تو مارکیز نے جواب دیا بنیادی طور پر اس لیئے کہ اس سے آپ کی ذاتی ذندگی میں مداخلت ہوتی ہے، آپ سے وہ وقت چھن جاتا ہے، جو آپ اپنے کام اور مقصد میں یا دوستوں کے ساتھ گذار سکتے ہو۔

صحافی نے مزید پوچھا کیا زندگی میں شہرت کا جلد آنا نقصاندہ ہے؟ مارکیز نے کہا یہ عمر کے ہر حصے میں نقصاندہ ہے اس لیئے میں ہمیشہ کہتا رہا کہ میرے تمام کتاب میرے مرنے کے بعد شائع کیئے جائیں، خاص کر ناول تنہائی کے سوسال۔

گبریل گارسیا مارکیز نے اپنی سب سے مقبول ترین نوبل انعام یافتہ ناول تنہائی کے سوسال کو لکھنے میں پورے 15 ماہ اپنے آپ کو گھر میں قید کرکے رکھا، اس کی بیوی مرسیدس 15 ماہ تک ادھار مانگ کر گھر کا خرچ چلا رہی تھی۔

جب تنہائی کے سوسال ناول شائع ہوئی، تو اس کی بے پناہ مقبولیت سے خود مارکیز ششدر رہ گیا، اس کے بعد خود وہ اعتراف کرتا ہے، جس تیزی اور دلچسپی سے میں اپنے مقصد اور کام پر دن و رات توجہ دیتا تھا، اس کے بعد ایسا نہ ہوسکا یعنی شہرت، دولت اور طاقت کی بے انتہاء تشنگی کسی بھی انسان کو اپنی کام اور مقصد سے لاعلم کرسکتا ہے۔ پھر وہ صرف اور صرف اپنا چہرہ ہمیشہ اور ہر جگہ شہرت کی آئینے میں تلاش کرتا ہے، تحریکی زندگی کیلئے انفرادی شہرت، دولت اور طاقت کینسر سے زیادہ خطرناک ہیں۔

صباء جیسا ایک درویش صفت انسان کیا خاک دولت جمع کرتا، وہ اپنی معمولی تخواہ کا 80 فیصد کتابوں اور غریب بے وس بچوں کو پڑھانے کیلئے خرچ کرتا تھا، بس اپنی سادہ سی زندگی گذارنے کیلئے جیب میں کچھ ہی رقم رکھتا تھا۔ صباء اپنے عمل رویے اور کردار سے خود کو ایک ادنیٰ سا کارکن پیش کرکے قومی تحریک کے ساتھ منسلک تھا۔ اس کے باتوں، اس کے اشاروں، اس کے چہرے اور رویے سے کبھی بھی لیڈری، دانشوری اور ادیب و شاعر کی معمولی جھلک اور تاثر نہیں ملتا۔

قومی زبان اور قومی ادب کے ترقی کے حوالے سے جس حدتک صباء نے خدمات سرانجام دیئے، اپنی شہادت تک وہ خود انہیں کبھی بڑاکارنامہ قرار نہیں دیتے تھے، حتیٰ کہ تحریک میں اپنے عملی کردار کو کبھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا۔

صباء جانتا تھا، شہرت کی بھوک انسانی کردار کی موت ثابت ہوگی۔ صباء جانتا تھا، شہرت گھمنڈ اور غرور کی پرورش کرتا ہے۔ صباء جانتا تھا، انفرادی شہرت اور شناخت بلوچ قومی تحریک کی تقسیم در تقسیم کی اہم وجہ ہے اور آگے مزید ہوگا۔ کیونکہ بلوچ قومی تحریک میں انفرادی شہرت اور ہر ایک کی انفرادی شناخت اور شوق والا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے، اگر یہ مزید شدت اختیار کریگا، پھر تحریک، تنظیم، سسٹم، نیٹ ورک، ادارہ وغیرہ کے علاوہ یعنی اجتماعی حوالے سے کوئی بھی کسی بھی قومی کام کیلئے ایک قدم اٹھانے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ ہر ایک کی سوچ اس حد تک محدود ہوگی کہ تنظیم اپنی جگہ اگر صرف چار بندے اکھٹے گروپ کے شکل میں کام کررہے ہونگے،تو وہ بھی شہرت کیلئے الگ شناخت کی جستجو کریں گے، یوں ٹوٹ پھوٹ و انتشار شروع ہوگا، پھر ہر کوئی اپنے انفرادی شناخت کیلئے تگ و دو میں مصروف عمل ہوگا، اس طرح تقسیم در تقسیم کا موسم ہر وقت سدابہار رہیگا، تحریک دن بدن کمزور شکل اختیار کریگا، یہ رجحان بالائی سطح سے لیکر نچلی سطح تک منتقل ہوگا۔

ویسے تو کوئی بھی، کسی کے بھی کسی طرح بھی مثبت متحرک کردار قابلیت اور صلاحیتوں کو نہ روک سکتا نہ کم کرسکتا ہے اور نہ رد، ضائع و زنگ الود کرسکتا ہے، البتہ ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو قبول نہ کرنا، برداشت نہ کرنا، پھر خود انتشار و ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتے ہیں اور ایک دوسروں کے کردار و صلاحیتوں کو قبول نہ کرنا بھی شہرت کی بھوک کی وجہ ہے، پھر یہ بھوک انسان کو آخر کار خود غرضی کی انتہاء کو پہنچا سکتا ہے۔

قومی کردار، قومی و اجتماعی سوچ، قومی فکر اور قومی تحریک میں سب پہلے اہم انفرادی،علاقائی، قبائلی پھر حتیٰ کہ ایک مقام پر تنطیمی عصبیت، شہرت اور شناخت سے نکل کر قومی سوچ اور تحریکی سوچ کے تحت عملاً گمنام بے غرض بے خوف ہوکر عملاً قومی تحریک میں کردار ادا کرنا، صباء کے نقش قدم پر چلنے کے ساتھ ساتھ اسکے پاک روح کی تسکین ہوگی۔