کیچ میں انتخابی مہم کی صورتحال
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
ٹی بی پی نمائیندہ کیچ: جیئند بلوچ
الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے پاکستان میں اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت کی تکمیل پر آئندہ ماہ عام الیکشن کا اعلان سامنے آنے کے بعد بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع کیچ میں پاکستان پرست جماعتوں نے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے، 2013 کے انتخابات میں مزاحمتی تنظیموں اور عوامی بائیکاٹ کے باعث بدتریں ناکامی کے سبب اس بار ووٹنگ کی شرح بہتر کرانے کےلیئے، وفاق پرست جماعتوں کو براہ راست پاکستانی فوج کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔
ضلع کیچ کو انتخابی حد بندی کے لحاظ سے آبادی کو مد نظر رکھ کر، صوبائی اسمبلی کی چار اور ایک قومی اسمبلی کی سیٹ دی گئی ہے، جو اس سے قبل تین صوبائی اور ضلع گوادر کو کیچ سے ملا کر نیشنل اسمبلی کی ایک نشست پر مشتمل تھی۔
2013 کو منعقد ہوئے پاکستانی عام انتخابات کا آزادی پسند جماعتوں کی اپیل پر عوام نے بائیکاٹ کیا تھا، جس کے باعث پارلیمانی جماعتوں کو سخت مشکلات کا سامنا رہا۔ نتیجے کے طور پر ووٹنگ کی شرح تین فیصد رہا۔ تربت جیسے گنجان آباد حلقے میں ڈاکٹر مالک رجسٹرڈ ووٹوں کا نصف تہائی حصہ لینے تک میں بھی کامیاب نہیں ہوئے تھے، جنہیں بعد میں بلوچستان کا وزیر اعلی بنایا گیا۔ حالانکہ اس وقت مختلف سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے ڈاکٹر مالک پر فوج کی سرپرستی میں کھلی دھاندلی کرنے کا الزام لگا تھا اور سوشل میڈیا پر دھاندلی کے بہت سے ویڈیو وائرل ہوئے تھے۔
گذشتہ انتخابات کے بابت آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ 2013کے الیکشن میں پاکستان کی فوج نیشنل پارٹی کی مکمل حمایت کررہی تھی، جس کے بدلے نیشنل پارٹی نے بلوچستان میں آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچانے میں فوج کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جبکہ اس دفعہ ہونے والے الیکشن میں نیشنل پارٹی کی جگہ فوج براہ راست بی این پی عوامی کو سپورٹ کررہی ہے جبکہ ڈاکٹر مالک کے بجائے فوج کا مطمع نظر سابق وزیر احسان شاہ ہے۔
احسان شاہ اور ان کے پارٹی کے کارکنان سوشل میڈیا سے لے کر اپنے سیاسی مجالس تک برملا کہتے آرہے ہیں کہ اگلا وزیر اعلیٰ یا پاکستان کا وزیر اعظم احسان شاہ کو چنا جائے گا، جس کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ شاید فوج کی جانب سے بھی احسان شاہ کو کوئی ایسا اشارہ دیا جا چکا ہے، تبھی وہ کیچ کی نیشنل اسمبلی اور تربت سٹی کے صوبائی حلقے دونوں نشستوں پر عوامی کے امیدوار ہیں۔
احسان شاہ کو بلوچستان میں وفاق پرست پارٹیاں بلوچستان کا آصف زرداری کہتے ہیں، جو فوج کے تعاون سے ہر سیاسی جوڑ توڑ میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک کی وزارت اعلیٰ کی تبدیلی اور ثناء اللہ کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کے دوران وہ کوئٹہ میں ثناء اللہ زہری کے قریب تریں شخصیتوں میں شامل رہے، جبکہ قدوس بزنجو کی وزارت اعلیٰ کے لیئے بھی ان کا کردار ڈھکا چھپا نہیں تھا نا وہ اپنے کردار سے انکار کرتے رہے۔
وہ اس تمام عرصے میں قدوس بزنجو کے ساتھ رہے، جب تک فوج کی طرف سے سیاسی سطح پر بڑی تبدیلی لا کر ثناء اللہ زہری کی جگہ قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اس کے بعد بھی وہ مختلف مجالس اور اپنے پارٹی نشستوں میں قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے میں اپنے وسیع تعلقات اور اثر و رسوخ کا اکثر ذکر کرتے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سابق وزیر احسان شاہ، پاکستانی فوج کے زہر اہتمام پنجابی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف عمران خان کے دھرنوں میں شریک رہے حتیٰ کہ انہوں نے ان دھرنوں میں اپنی زوجہ کو بھی شریک کیا اور اسلام آباد کے آبپارہ چوک پر ان سے تقریر کرائی، جو اس وقت سینٹر تھیں۔
احسان شاہ کو ہوسکتا ہے اس وفاداری کے عوض ڈاکٹر مالک کی جگہ لانے کا فوجی پلان ہو، کیوںکہ جب وہ اقتدار سے باہر تھے، تو ان کا پاکستان کے فوج کے ساتھ قریبی تعلق تھا۔ تربت میں فوجی انتظام میں منعقد ہر تقریب اور جلوس بی این پی عوامی کے تعاون سے ہوتے تھے، جن میں احسان شاہ اور ظہور کے علاوہ زبیدہ جلال ہمیشہ نمایاں ہوتے۔ احسان شاہ پر الیکشن میں مدرسے کی جعلی ڈگری کا کیس ثابت ہوا تھا، جس پر ہائی کورٹ بلوچستان نے ان پر تاحیات الیکشن لڑنے کی پابندی عائد کی تھی مگر یکایک ان پر یہ پابندی سپریم کورٹ نے ہٹادی، جس کے پیچھے فوج کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔
بی این پی عوامی کی جانب سے باقاعدہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر نوزائیدہ باپ کو الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ کرنے سے انکار کر کے ان کے امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہیں کیا تو ان کے تمام امیدوار بی این پی عوامی کی طرف سے الیکشن لڑینگے یہ فیصلہ بھی احسان شاہ کا تھا، جس کا ذکر انہوں نے مجالس میں کئی بار کیا۔
دوسری طرف سابق حکمران جماعت نیشنل پارٹی اگلے الیکشن میں حصہ لینے کے لیئے اس گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کررہی جو 2013 میں کررہی تھی۔ اب تک این پی کی انتخابی سرگرمیاں ماند ہیں۔ تربت میں اس مرتبہ انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہی بی این پی عوامی نے کیا ہے، جبکہ احسان خاصے متحرک ہیں اسکے علاوہ بی این پی مینگل اور باپ بھی کافی حد تک سرگرم ہوئے ہیں، لیکن نیشنل پارٹی بظاہر انتخابی عمل میں سرگرمیوں کے حوالے سے خاموش نظر آتی ہے حتیٰ کہ خود ڈاکٹر مالک اس بار الکیشن میں حصہ نہیں لے رہے۔
نیشنل پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق نیشنل پارٹی کو شاید یقین ہوچلا ہے کہ اس مرتبہ بی این پی عوامی اور باپ کو ان کی جگہ لا کھڑا کیا جائے گا اس لیئے وہ الیکشن سرگرمیوں سے کچھ الگ ہیں، ڈاکٹر مالک نے گذشتہ دنوں پارٹی کےسینئر باڈی میٹنگ میں اس الیکشن کو خطرناک قرار دیا تھا۔ گذشتہ الیکشن میں نیشنل پارٹی کو مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
آئندہ الکیشن میں مزاحمتی تنظیموں کی پالیسی کیا ہوگی، اس پہ سیاسی سطح پر اضطراب موجود ہے اور مزاحمتی تنظیموں کی خاموشی کو خطرناک سمجھا جارہا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نظر کی طرف سے ایک بیان میں بلوچ عوام کو الیکشن سے بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے علاوہ بی ایل ایف نے باقاعدہ الیکشن سے عوام کو دور رہنے کے ایک بیان کے زریعے اپیل کی ہے، لیکن اسکے باوجود پاکستان پرست جماعتیں خصوصاً بی این پی عوامی احسان شاہ،اصغر رند، اور باپ کے ظہور بلیدی وغیرہ باقاعدہ الکیشن مہم چلا رہے ہیں۔
اس بابت علاقائی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ پارٹیاں عوام کو دھونس دھمکی اور لالچ و مراعات دے کر الیکشن میں حصہ لینے کی سخت تگ و دو کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ نیشنل پارٹی کے ٹکٹ سردار عزیز بزنجو بھی متحرک ہیں، خیال یہ ہے کہ اسے باپ کی حمایت بھی حاصل ہے، سردار عزیز کے بابت یہ الزام ہے کہ وہ ایک ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ ہیں۔
انتخابی سرگرمیوں میں اس بار کیچ میں سب سے زیادہ بی این پی عوامی سرگرم ہے، جسے ان کے کارکنان کے بقول اس بار بلوچستان کا وزارت اعلیٰ یا پاکستان کا وزارت عظمیٰ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے ظہور کے بعد کچھ کہنا قبال از وقت ہے، کیونکہ اس ” پرو اسٹبلشمنٹ” پارٹی کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ راتوں رات اسکو خفیہ اداروں نے قائم اسلیئے کیا ہے کہ بلوچستان کی اگلی حکومت انکے حوالے کی جائے۔