کیاعبدالنبی کوئی بوڑھا بچہ ہے؟ – برزکوہی

428

کیاعبدالنبی کوئی بوڑھا بچہ ہے؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

ایک نئے سائینسنی اور نفسیاتی ریسرچ کے مطابق، اگر کوئی بندہ بلاضرورت، بغیر کوئی کال اور میسج کے ایک گھنٹے کے اندر اندر آٹھ دفعہ اپنے موبائل فون کو ہاتھ میں لیکر اٹھاتا اور دیکھتا ہے، تو وہ سوشل میڈیا اڈکٹ ہوچکا ہے یعنی وہ سوشل میڈیا کی نشے میں مبتلا ہوچکا ہے، جو ایک نفسیاتی مرض ہے۔ میں ایسا ہر گز نہیں لیکن پھر بھی نا چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی دھیان موبائل کی طرف ضرور پلٹ جاتا ہے۔

ان دنوں میں پروشیا (جرمنی) کے شہر کونگس برگ کے مشہور و معروف فلاسفر امانوئل کانٹ کا مشہور و معروف کتاب “تنقید عقل محض” کا مطالعہ کررہا ہوں۔ کتاب تنقید عقل محض کو جو اہمیت و مقام جدید فلسفے میں حاصل ہے، اسے اہل نظر خوب جانتے ہیں۔ مگر یہ کتاب جتنی اہم ہے اتنی ہی دقیق اور مشکل ہے۔ اس لیئے کہ ایک تو فلسفے کا موضوع بحث سب سے ادق مسئلہ ہے یعنی نظریہ علم ہے، دوسری بات کانٹ کے اسلوب و بیان پیچیدگی میں بھول بھلیوں سے کم نہیں۔ “تنقید عقل محض” کے حوالے سے جرمن فلسفی شوپن ہاوایر کہا کرتا تھا کہ “جب تنقید عقل محض کو پڑھتا ہوں، تو سر چکرا جاتا ہے”

پھر ہم جیسے فلسفے سے نابلد انسانوں کا کیا حال ہوگا، کانٹ کو پڑھنے سے سر چکرا جانے کے ساتھ ساتھ سر درد، اکتاہٹ، غصہ، احساس کمتری اور حیرانگی کی ملتا جلتا ردعمل جب دماغ پر حاوی ہوتا ہے تو آدھے گھنٹے کے بعد وقفے وقفے سے کتاب ایک طرف رکھ کر موبائل ہاتھ میں لیکر ٹائم پاسی شروع کرتا ہوں۔ اسی ٹائم پاسی کے دوران اچانک میرعبدالنبی بنگلزئی کے انٹرویو پر نظر پڑا۔ پہلے نظر انداذ کرنے کی کوشش کی کیونکہ جہاں تک میں نے میر صاحب کے بارے میں سنا تھا وہ یہ کہ “وہ بولتا بھی ہے، لیکن کچھ نہیں بولتا” انکے نہ بولنے کی وجہ جو بھی ہے، جو بھی تھا، میں کچھ نہیں جانتا ہوں، لوگ بھی نہیں جانتے ہیں، میں کبھی اسے مصلحت پسندی، خوف غرضی، کبھی تو شخصیت پرستی، رواداری، ذاتی رشتہ داری، تعلق داری اور کبھی کبھار انتہائی بے رحم ہوکر کم علمی نا زانتکاری بھی گردانتا تھا، لیکن خود میر صاحب سے کبھی کبھار اس حوالے سے بات ہوتا، تو باتوں کے لب لباب سے اندازہ ہوتا میر صاحب انقلابی عمل سے ذیادہ ارتقائی عمل کی پیروکار ہیں۔ وہ چیزوں کے ارتقائی عمل کے ساتھ تبدیل کرنے خواہاں ہیں گوکہ ارتقائی عمل خود بھی ایک انقلابی عمل ہے، شاید رفتار میں فرق ہو کبھی کبھبار میر صاحب کے منطق سے مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ سماج اور سماجی زندگزراں کو مکمل مدنظر رکھ کر قدم اٹھانے اور رائے قائم کرنے کے قائل تھے اور ہم جیسے ادنیٰ سیاسی کارکن کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ قدم اٹھاکر اور رائے قائم کرکے سماج اور سماجی ذندگزراں اور سماج کی موجودہ حالت اور سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا، نہ کہ فرسودہ روایتی قبائلی نیم قبائلی سماج کو خاطر میں لاکر اس کو وقت و حالات اور ارتقائی عمل پر چھوڑ کر تبدیلی کی خواہش کرنا۔

یہاں سے میر صاحب سے ہمیشہ اختلاف ہوتا، کبھی کبھار بلکہ آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ شاید ہم نوجوان عقل و منطق سے عاری صرف جوش و جذبے اور تجربے کے حوالے سے میر صاحب سے کم، ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں یا میر کو نہیں سمجھتے ہیں یا میر ہم کو سمجھانے سے قاصر ہیں، یہ فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہوگا۔

لیکن میر صاحب کے حالیہ انٹرویو کو نظر انداز کرنا یا حسب روایات و حسب رسم محض ایک انٹرویو سمجھ کر نظر انداز کرنے کو میں خود غیرسیاسی عمل سمجھ کر بجائے سرسری پڑھنے کے غور سے پڑھنا شروع کیا۔ شروع شروع میں بہت سے جگہوں پر کانٹ کی کتاب “تنقید عقل محض” کی طرح میر کا انٹریو بھی میرے سر کو چکرا دیتا ہے۔ میں نے کہا شاید کانٹ کے کتاب کے ہر صفحے کو تین یا چار دفعہ پڑھنے کے بعد اب ہر پڑھنے والی چیز مجھے فلسفہ لگتا ہے یا پھر اس پر فلسفانہ نقطہ نظر سے سوچنا پڑتا ہے، اس لیئے سرمیں چکر اور درد ہوتا ہے۔

لیکن میر صاحب کے انٹریو کو تین دفعہ غور سے پڑھنے کے بعد جب ختم کیا اور اس کے بہت سے پوائنٹ نوٹ کرکے، ان پر غور کرنا شروع کیا تو واقعی عبدالنبی کی باتوں میں جگہ جگہ میں نے فلسفے کا رنگ اور فلسفے کے خوشبو کی مہک محسوس کی۔ جس طرح اس نے سوالوں کا جواب واضح، صاف، غیرجانبدار اور فلسفیانہ انداز میں دیا۔ میں نے جس عبدالنبی کو دیکھا تھا، وہ وہ عبدالنبی نہیں تھا۔ باقی سوالوں کے علاوہ خاص کر ایک سوال، جو صحافی کا سوال تھا، جو میرے ذہن میں بھی ہمیشہ ایک سوال رہا ہے۔ ظاہر صحافت میں مہارت رکھنے والے صحافی بھی عوامی سوچ اور عوامی سوالوں کو لیکر کسی سے سوال کرتے ہیں، وہ سوال مختصراً یہ تھا کہ ہمارے رہنماء دوسروں رہنماؤں جیسے کہ کم ال سنگ، اوجلان کرد وغیرہ کی طرح کیوں نہیں لکھتے؟ پھر جواب میں میر نے جس طرح اپنے آپ کو فلسفیانہ انداذ میں اور دوسرے رہنماوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر سماج، مفادات اور مجبوریوں کے قید میں صلاحیتوں کو پاپندِ سلاسل پیش کرکے میرے ذہن میں کب سے اس الجھے ہوئے سوال کو آزاد کردیا۔

اسی طرح بہت سے ذہنی الجھن اور سوال کب سے ذہن کو بار بار لاعلمی کے ہتھوڑے سے مار رہے تھے، ذہن زخمی اور مفلوج ہوتا جارہا تھا لیکن بہت سے سوال، خدشات، گبھراہٹ، محسوسات اور الجھن ذہن پر اب بھی سوار ہیں لیکن کچھ نہ کچھ بوجھ میر صاحب نے فلسفیانہ طرز انداذ میں کم تو کردیا۔ جس طرح گبرئیل گارسیا مارکیز کہتا ہے کہ “ادب چیزوں کی وضاحت نہیں کرتا بلکہ چیزوں کی طرف ایک معمولی اشارہ ہوتا ہے۔” میں کہتا ہوں فلسفہ بھی چیزوں کی کھوج لگانے ان کی گہرائی تک پہنچ جانے کے ساتھ ساتھ چیزوں کی طرف ایک جھلک اور اشارہ ہوتا ہے۔ اب میر صاحب کے نیم فلسفیانہ انٹرویو کو پورا کون سمجھا، کون سمجھتا اور کون سمجھ سکتا ہے؟

مجھے ویسے بھی سوشل میڈیا پر جو بھی آراء دیکھنے کو ملتے ہیں، جو بھی ماحول ہے، جس طرح دیگر اقوام کے مقابلے میں بلوچ اسکا استعمال کررہےہیں۔ میں اس سے ایک فیصد بھی مطمئن نہیں ہوں، کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ فائدے سے زیادہ نقصان ہے۔ کیوں اور کیسے؟ یہ ایک طویل بحث ہے۔ جس پر جانا نہیں چاہتا ہوں۔ پھر اصل موضوع گم ہوجائیگا، بہرحال سوشل میڈیا پر پیش کردہ آراء پر یقین نہیں، وہ لوگ جو حمایت کرتے ہیں کسی چیز کا؟ وہ کیسے لوگ ہیں؟ وہ جو مخالفت کرتے ہیں، کیسے لوگ ہیں؟ ان کی سوچ و اپروچ کی معیار، مفاد، علم و تجربہ اور عمل و کردار سب کے سامنے ہے۔ پھر میر صاحب کے انٹرویو کے بعد بلوچوں کے سوشل میڈیا کے گند آلود حصہ کے سیاسی گندگیوں پر نظر پڑا، تو یہ سمجھا کہ کوئی میر صاحب کے انٹرویو کو بغیر پڑھے، کوئی پڑھ کر نہ سمجھے، کوئی ضد، کوئی بغض، کوئی طنز، کوئی مذاق، کوئی گالی، کوئی الزام اور کوئی تحریکی رازوں کو افشاں کرنے میں پیش پیش، سب اپنے بنائے گئے مورچوں پر بیٹھ کر ہوائی فائرنگ شروع کیئے ہوئے تھے تاکہ حضور جی کو پتہ ہو کہ جی حضور آپ کے فرمانبرادار سوئے ہوئے نہیں بلکہ بیدار ہیں۔ آپ کے ہدایت کی روشنی میں ہم وہی کررہے ہیں، جو پانچ سال سے آپ کروارہے ہیں۔ یقین نہیں تو سکرین شاٹ روانہ کردینگے کہ ہم نے آج خوب دبا دیا رسوا کیا۔ فلانی نے بھی اچھا پوائنٹ مارا وہ ڈر گئے خاموش ہوگئے۔ سب لوگ ہمارے ساتھ ہیں، سب آپ کی تعریف کررہے ہیں۔ بلکہ اس انٹرویو کے بعد آپ کی اہمیت حضور پاک اور زیادہ بڑھ گیا، وہ تو رسوا ہوگئے، پورا بلوچ قوم ان سے بدظن ہوگیا، بس چند دن میں سب انکو چھوڑ رہے ہیں، ہمارے ساتھ آرہے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی میرے خیال میں میر صاحب کے انٹرویو کو کوئی سمجھ بھی نہیں رہا ہے، بھائی یہ کسی کے ذات کے خلاف نہیں، کسی کے حمایت میں بھی نہیں، بلکہ بلوچ تحریک کے ماضی حال اور مستقل کے بارے میں صرف عقلی نہیں بلکہ تجرباتی مسودہ ہے۔ جو حقائق اور غیرجانبداری پر مبنی ہے۔ اس پر غور ہونا چاہیئے کہ میر صاحب نے گولیوں کے رخ کے سامنے اپنا سینہ کرکے یہ باتیں کی ہیں۔ یہاں فلسفی ہیگل کا وہ جملہ مجھے یاد آتا ہے کہ “میرا فلسفہ میرا ایک ہی شاگرد روزن کرانز سمجھا ہے، وہ بھی غلط سمجھا ہے۔”

میر نے کم از کم 50 سالہ عملی جہدوجہد کا حصہ رہتے ہوئے، بلوچ تحریک کی شیرین اور تلخ حقائق، یادوں، نشیب و فراز کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے، محسوس کرتے، تجزیہ کرتے اور سمجھتے ہوئے وہ بھی بلوچ دشمنوں کو مدنظر رکھ کر پھر خاطر رواداری، صبر و خاموشی کے دامن کو ہاتھوں میں تھام کر بہت کچھ کہنے کے باوجود، کچھ بھی نہ کہتے ہوئے جب کچھ کہتا ہے، وہ بھی غیرجانبداری اور حقائق کی بنیاد پر، انتہائی محتاط اور سیاسی علمی اور فلسفانہ طرز میں کہتا ہے۔

یہ ردعمل مزاحقہ خیز ہے کہ عبدالنبی جیسا شخص استعمال ہورہا ہے، استعمال ہوگیا۔ کیا عبدالنبی بوڑھا بچہ ہے؟ فرض کریں عبدالنبی، ڈاکٹر نظر، اسلم اور بشیر زیب کے ہاتھوں استعمال ہوسکتا ہے اور یہ سب کہہ رہا ہے۔ پھر وہ نوجوان جو آج بھی نظریاتی یا مجبوری کے تحت واجہ حیربیار، واجہ براہمداغ، واجہ مہران، واجہ جاوید کے ساتھ وابسطہ ہیں پھر ان کو کیوں اللہ نظر اسلم اور بشیر استعمال نہیں کرسکتے ہیں؟ کیا وہ نوجوان سوچ، فکر، نظریہ، علم، تجربہ، حالات کے ادراک اور پیشن گوئیوں میں عبدالنبی سے زیادہ واقف ہیں؟

ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیئے اور بجائے کسی کو خوش کرنے کی خاطر پوائینٹ اسکورنگ کرنے کہ ایک دفعہ کم از کم میر صاحب کی انٹرویو پر غور کرکے سوچنا چاہیئے کہ کشتی میں کہاں سے سوراخ ہے؟