کچرا چننے والے کیپٹن قدیر کی حقیقت
کوہ دل بلوچ
زہری بلوچستان کے اُن پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں تعلیم، صحت، پانی، بجلی اور بنیادی ضروریات زندگی سمیت تمام سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس جدید دور میں جب بھی بلوچستان میں عالمی صحافت نے کبھی بھول کر قدم رکھا ہے، تو واپسی پر اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ “ہم جب بلوچستان میں پہنچیں تو ایسا لگا جیسے آثارِ قدیمہ کے کسی بستی میں موجود ہیں۔” اور اسی بلوچستان کا ایک علاقہ زہری، جہاں آج بھی خواتین اور بچے دور دراز قصبوں یا پہاڑوں میں قدرتی چشموں سے پانی بھرنے کیلئے جاتے ہیں، جن کی حالت زار پر نہ کوئی وزیر آب دیدہ ہوتا ہے، نہ کوئی کیپٹن یا کسی مار خور میجر کو ان پر ترس آتا ہے۔
پنجکان زہری کے اُن قصبوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں کے باسی گھر سے گدھوں اور اونٹوں پر خالی مشکیزے اور برتنیں لاد کر میلوں کا مسافت طے کرکے اپنی پیاس بجھانے کیلئے پانی لے آتے ہیں اور یہ گاؤں پنجاب کے وفادار عبدالجبار سمالانی کے بیٹے کیپٹن قدیر کا آبائی علاقہ کہا جاتا ہے۔
واپڈا اور وزیروں کی آنکھ مچولی اور طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اس علاقے کا باسی دو یا چار گھنٹے کیلئے جھانسا دینے والی بجلی کی وجے سے ایک گھنٹے پہلے گھروں سے نکل کر دور ٹیوب ویلوں پر آکر انتظار کرتے ہیں کہ کب بجلی آجائے اور ہم پانی بھر کر واپس گھروں کی جانب لوٹ جائیں، ستم ضریفی کا تو یہ عالم ہے کہ کبھی کبھی خالی برتنوں کے ساتھ گھر واپس لوٹ جاتے ہیں۔
مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس علاقے میں تمام انسانی سہولیات نا پید ہوں، پینے کا صاف پانی تک نہ ملے اور وہاں کا نوجوان آرمی کا کیپٹن بن جائے، اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے تین بھائی آرمی میجر بن جائیں، اور والد ریاستی اوچھا ہتھیار لیئے، پنجابی کو خوش رکھنے کیلئے ہر جاگہ تاکتا رہتا ہو، جاسوسی کرتا رہتا ہو کہ کس کی بارات پر اپنی خفیہ وار کرکے ان کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دوں۔ ہے نہ حیرت کی بات؟.
اکبر سمالانی و جبار سمالانی کے خاندان سے کیپٹن قدیر سمیت تین افراد میجر جمیل اکبر، ظہور اکبر اور نذیر اکبر ایسے عہدوں پر کیسے فائز ہوئے، کوئی سمجھے نہ سمجھے قدیر کے کندھوں پر کچروں سے بھری ہوئی بوری، میلے اور پُرانے کپڑے پیروں میں پھٹے ہوائے جوتے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی نوکری وراثت سے ملی ملکیت ہے۔.
اکبر سمالانی چند مراعات کی خاطر جاسوسی، دلالی کرکے پنجابی فوج کو اپنے خاندان سے آفیسر فراہم کرکے اس دلالی کو اپنی نسلوں کو منتقل کرتا رہا ہے۔ وہ چند مراعات و نوکریوں کی خاطر بلوچ قوم کی دشمنی کرتے رہے. آج یہ کچرے کا تھیلا کندھوں پر لادے، بلوچ نوجوانوں کے قاتل گھوم پھر کر اسی مٹی میں دفن ہونے چلے آتے ہیں، جس کے سچے فرزندوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔
چار پیسوں کے عوض بکنے والا شخص اپنے بھائیوں کا خون پینے والا ریاستی مارخور بن جائے، ان کے ایسے اعمال سے پنجابی میڈل سینے میں چسپاں ہوں اور کیپٹن بننے کیلئے ہزاروں نہتے بلوچ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے جاسوس بن کر گلی کوچوں میں پنجابی قبضے کو اپنا مشن بناکر پھرتا ہو، تو ایسے شخص کو مسیحا نہیں بلکہ بلوچ قوم کا قاتل اور بلوچ دھرتی کا غدار کہتے ہیں۔
اکبر سمالانی جیسے چند پیسوں پر بکنے والے گنے چُنے چند دلال شرافت کا لبادہ اوڑھ کر اس مادر وطن کی بیخ کُنی میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں، مگر کب تک مظلوموں کے خون سے لت پت لاشوں میں منہ چھپاکر دشمن کا کام آسانی کرتے رہوگے۔ دشمن نے منڈیوں میں بکنے والا تیرا ضمیر پہچان کر تجھ کو کیپٹن و میجر(صادق و جعفر) بناکر اس قوم کے مٹانے کا ناکام منصوبہ تو بنا لیا، مگر تم یہ کبھی نہیں سوچنا کہ بلوچ قوم دلجان اور امتیاز جیسے نڈر نوجوان بنانے کا ہنر کھو بیٹھا ہےاور تم یہ بھی نہ سمجھنا کہ بلوچ قوم تمہیں معاف کرے گی۔
تیرے ہر کچرا چننے والے کے آگے ایک بلوچ فرزند نڈر نثار کوہِ سچاپ کی طرح سینہ تان کر کھڑا ہے، تیرے ڈھائے ہوئے ہر ظلم و ستم کا ایک دن ضرور حساب ہوگا۔