کتابوں سے پیار کرنے والا حسام
سنگت فقیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
میں ایک ادنیٰ سیاسی کارکن ہمیشہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مقدس مجالس میں سیکھنے کی کوشش کرتا رہا، انہی مجالس میں مجھے ایک ایسے شخصیت سے سیکھنے کا موقع ملا، مگر بد قسمتی سے وہ آج عقوبت خانوں میں زندگی اور موت کے کشمکش میں مبتلا ہے۔ آج حسام کو لاپتہ ہوئے سات مہینے سے زائد ہوچکا ہے، میں نے کوشش کیا کہ چند یادیں اور الفاظ حسام کے متعلق لکھنے کی کوشش کروں، جو آپ دوستوں کے نظر ہیں۔ اگر کمی بیشی رہا تو میں معذرت خواہ ہوں، وہ اس لیئے کہ ایک شاگرد اپنے استاد پر کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہو تو بہت مشکل ہے لکھنا اور بیان کرنا۔ اپنے عظیم استاد کو لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں۔ حسام ایک مکتب کا نام ہے، حسام ایک بند سماج میں روشنی کا نام ہے، حسام ہم سب کا مستقبل ہے۔ جسے میں نے ہمیشہ کتابوں سے پیار کرتے پایا۔ حسام کو ہمیشہ میں نے مطالعہ کرتے دیکھا۔ جس کے ساتھ باقاعدہ میرا پہلا سیاسی نشست جنوری 2015 میں ہوا۔ اس سے پہلے بھی ہم ملتے تھے چونکہ میں اور حسام بلوچ ایک ہی کالج (عطا شاد ڈگری کالج) اور ڈیلٹا سینٹرمیں پڑھا کرتے تھے اور ہر وقت ہماری ملاقات کالج اور سینٹرمیں ہوا کرتا تھا اور ہم ایک دوسرے سے واقف تھے۔
مجھے یاد ہے جب دسمبر2013 میں ڈاکٹر مالک عطا شاد ڈگری کالج کے دورے پر آیا تو استاد حسام بلوچ اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں موجود تھے، تو ڈاکٹر مالک صاحب نے بوائز کالج اور گرلز کالج سمیت تربت یونیورسٹی کیلئے چند بسوں کا اعلان کیا، تو حسام نے ڈاکٹر مالک سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے بسوں کا اعلان تو کرلیا ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ کب اور کس تاریخ کو آپ اپنا وعدہ پورہ کرلوگے۔ تو مالک صاحب مسکراتے ہوئے بولا (منی پُلو خیر بیت) جی ہاں ڈاکٹر صاحب نے سب کچھ کیا، بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کیا، جس سے بلوچی میگزین اور لائبریریوں میں سیاسی اور ادبی کتابوں پر پابندی عائد ہوئی۔ 7 جنوری 2014 کو عطا شاد ڈگری کالج اور ڈیلٹا سنٹر پر چھاپہ لگوائے تاکہ وہاں کے تعلیمی ماحول اور نیشنلزم کی سوچ کو ختم کیا جاسکے، اسی کے ساتھ شام 7 بجے کے وقت بی ایس او آزاد تربت زون کے جنرل سیکٹری شہید رسول جانِ کے کمرے میں پاکستانی فوج نے چھاپہ مارا، جس دورانیئے میں وہاں موجود سر رسول جان سمیت 11 چھوٹے بچوں کو اٹھایا گیا۔ مگر بعد میں سر رسول جان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔
تربت میں تعلیم مخالف مہم باقاعدہ منصوبے کے ساتھ ایک نہ رکنے والی کاروائی شروع کی گئی، جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ کم اخراجات پر پڑھنے والے طلبا، تعلیم کو خیرباد کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مگر استاد حسام جو اس وقت عطا شاد ڈگری کالج میں رہائش پذیر تھا، وہ کسی دوست کے ہاں ٹہرے مگر اپنی پڑھائی کو برقرار رکھا، کچھ مہینے بعد دوبارہ ڈیلٹا سینٹرپڑھائی کیلئے کھول دیئے گئے، چونکہ تربت شہر میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے بعد دوبارہ کھولنے کی اجازت مل گئی تھی، تو اس دوران استادحسام نے بحثیت انگلش ٹیچر ڈیلٹا سینٹر جوائن کیا۔ وہ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے بلوچ طلبا و طالبات کو علمی شعور اور قومی غلامی کے خلاف علمی درس اور تعلیم جیسی ماحول فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ جسے استاد کے بجائے ہم کامریڈ حسام سے مخاطب ہوتے BSO آزاد تربت زون کے سینئیر کارکن سررسول جان کو اغوا کرنے کے بعد کامریڈ حسام تنظیمی دوستوں کو منظم اور ڈسپلن میں لاکر سب کو علمی تربیت کے سلسلے میں ہر وقت مصروفِ عمل تھے۔ بی ایس او آزاد سے وابسطہ تمام کارکنوں کو مطالعے کا پابند کیا، جس سے ایک نئی امید اور حوصلہ ہمیں ملا۔
کامریڈ حسام کیچ میں بی ایس او آزاد ماڈل اسکول اور کالج کے یونٹ سیکریٹری رہا اور پھر مارچ 2015 میں تربت زون کا جنرل باڈی اجلاس منعقد ہواتو وہ تربت زون کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے بعد میں1,2,3نومبر 2015کو بیسویں قومی کونسل کونسل سیشن میں مرکزی ممبر منتخب ہوئے، کامریڈ حسام مرکزی زمہ دارویوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ نبھاتا رہا۔ ہمیشہ تعلیم اور تربیت کے سلسلے کو بڑھاتا رہا۔
بی ایس او آزاد کے کارکنوں کی تربیت کیلئے اسکول آف لیڈرشپ کے نام سے ایک تربیتی سلسلہ شروع کیا گیا، جو آج بھی جاری ہے، مگر حسام جیسا باصلاحیت اور علمی کامریڈ میں نے بہت کم دیکھا، جو مختلف موضوع پر انتہائی خوبصورت انداز میں تبصرہ کرتا رہتا۔ حسام بلوچی اور انگریزی زبان میں شاعری لکھتا رہاْ۔ جنکا ایک نظم جو بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن شبیر بلوچ کیلئے لکھا گیا ہے، جسے گورکوپ سے پاکستانی آرمی اور ایف سی نے ایک فوجی کاروائی کے دوران گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تو شبیر بلوچ کویادکرنے کی صورت میں حسام نے آپ سے جڑے تکالیف کا اظہار شاعری کی صورت میں پیش کیا، وہ کچھ یوں ہے
دسمبر شُت پہ بے برمشی نیتکے تو
نیتکے تو کہ تہناہی مہ جنت زنگ ءَ
زھیرانی
تی راہسر نگاہانی ہدا بُندانت
گشے اہد ءِ شپانکاں من
رمگ زرتگ
ہیال ءِ جنگل ءَ ویلاں
بلے ڈکال اُوستانی منا نیلیت
من واتر باں گس ءَ کایاں
ملامت باں
تی اندوہ چو اگریچ ءَ
توامیں نوبت ءَ سوچیت
تو واتر کن دسمبر بنگرگ لوٹیت
مگر مجھ جیسے بدنصیب حسام جیسے باصلاحیت کرداروں کو سمجھ نہ سکے۔ دوسری طرف ریاستی ظلم و ستم ہمیشہ بی ایس او آزاد کے باصلاحیت کارکنوں کو ہم سے جدا کرتا رہا۔ اسی امید کے ساتھ کے آپ اپنے دوستوں کے ساتھ واپس آکر بلوچستان کی سیاست میں مجھ جیسے نااہل اور کمزور کارکنوں کو انسان بنانے میں اپنا کرار ادا کریں گے، میں عالمی انسانی اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حسام سمیت باقی دوستوں کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ کتاب پڑھنے والے اور کتابوں سے پیار کرنے والے حسام باحفاظت آکر دوبارہ اپنی کتابوں کا مطالعہ کریں۔