چاند رات کی رونقیں – جلال بلوچ

384

چاند رات کی رونقیں

تحریر:جلال بلوچ

دی  بلوچستان پوسٹ 

چاند رات کی رونقیں اپنی عروج پر تھیں، گل رنگ، راسکوہ و دیگر ہوٹلوں کے سامنے لوگ کثیر تعداد میں دنیا و عالم کے غموں سے بے خبر اپنے خوش گپیوں میں مگن تھے۔ بازار میں عید کی تیاریوں میں مصروف لوگ رات دیر تک پھرتے رہے، مٹھائی کی دکانیں لوگوں سے بھرے پڑے تھے۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہر گھر میں لذیذ پکوانوں کی مہک تھی۔ پٹاخوں کی آوازوں میں بچوں کی خوشی واضح ہورہی تھی, حسین ہاتھوں پر مہندی کے پرکشش ڈیزائن کشی ہورہی تھی۔

وہ تاریک رات ایک روشن دن کی مانند چمک رہی تھی، چند مسجدوں کے سپیکروں سے کچھ زرخرید ملا قابض کی ترجمانی میں گلا پھاڑ رہے تھے، مگر ان بے انتہا خوشیوں، قہقہوں اور روشن گھروں کے بیچ ایسے بھی گھر تھے، جہاں صرف ایک مدہم سی پیلی بلب کچے گھر کے سامنے لٹک رہی تھی، جسکی مختصر سی روشنی ایک عجب سی منظر پیش کر رہی تھی۔

چارپائی پر بیھٹا ایک عمر رسیدہ باپ جسکے ماتھے پر دکھوں کی لاتعداد لکیریں واضح ہورہی تھیں، ایک بیمار ماں جسکی نظریں گھر کی زنگ آلود گیٹ پر ٹکی ہوئی تھیں، جاہ نماز پر لمبی سی تسبیح کے نگینوں سے ذکر کرتی دو بہن بھائی جن کے ہاتھ مہندی سے محروم تھے۔ گھر میں سکوت مرگ جیسی خاموشی چھائی ہوئی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے درد و غم کا ایک پہاڑ اس گھر پر گری ہو۔ ہمسایوں کی شور وغل سے انکے اندر چھپا اکیلاپن، ابھر کر انکھوں میں آنسوؤں کی صورت ٹپکنے لگے۔

اچانک ایک بہن کے لبوں سے ایک ایسی دردناک سسکی نکلی کہ اسے دیکھ کر سب کی آنکھیں نم ہوگئیں، مگر لب ابھی تک خاموش تھے۔ آخر اس گھر میں ایسا سماء کیوںکر تھا؟ عید کا دن جیسے ہی قریب تر ہوتی جارہی تھی، انکے غم میں اضافہ کیونکر ہورہا تھا؟ کیوں علاقے کی خوشی، رونقیں، پٹاخوں کی آوازیں انہیں سلگتی انگاروں کی مانند جلا رہیں تھیں؟ در اصل چار مہینے قبل ایک سرچ آپریشن میں اس گھر کا چراغ اغواء ہوا تھا۔

اکثر ایسی حالت میں جب لوگ اپنے خوشیوں میں گم ہوکر ایسے لوگوں کو بھول جاتے ہیں، تو بے حد تکلیف ہوتی ہے۔ وہ ماں یہی سوچ رہی تھی کہ یہ لوگ جو اس قدر مستیوں میں مگن ہیں کیا یہ دن ان کیلئے کبھی دوبارہ آسکے گی؟ کیا کبھی دشمن کی پلید نظریں اور قدم ان کے گھروں پر نہیں پڑیں گی؟ کیا حالت جنگ میں اس قدر اچھل کود ٹھیک ہے؟ کیا ان مستیوں سے شہیدوں کے گھر والوں اور گمشدہ نوجوانوں کے لواحقین کی دل آزاری نہیں ہوگی؟

پچھلے ہی عید ان کا جگر گوشہ انکے ساتھ تھا، نیز جو روایتی خوشیاں منائے جارہے تھے، ان میں قابض فوج عوام سے چار قدم آگے تھا۔ اہلکاروں کی مصنوئی یکجہتی کا ڈھونگ اور کرنل کی چاپلوسی اپنے عروج پر تھی، تو ان حالات میں وہ کس منہ سے خوشیاں مناتے؟

ایک پل کیلئے تو سب ناامید ہوگئے تھے، بہنیں اپنے آنسو لیئے اور ماں باپ اپنے منتظر بھیگی آنکھوں کے ساتھ سونے ہی والے تھے کہ اتنے میں ایک انتہاہی زوردار دھماکے سے پورا علاقہ گونج اٹھا، اسکے ساتھ ہی شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔ مختلف بندوقوں کی آوازوں سے زمین کانپ رہی تھی، خوف کے آثار ہر دل کی دھڑکن بن کر زور زور سے دھڑک رہے تھے۔

چاند رات کی رونقیں سونی پڑ گئیں، روشنیاں بھج گئیں، سب لوگ گھروں میں محصور ہوگئے، ہر شخص کو جلد ہی یاد آگیا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ہمسایوں میں اور ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ “ایف۔سی پر حملہ ہوا ہے۔”

کچھ دیر کے بعد جب مکمل سناٹے میں پورا شہر ڈوبا ہوا تھا۔ اتنے میں گھر کے موبائل پر میسج کی گھنٹی بجی تو بوڑھے باپ نے عینک لگا کر میسج اوپن کیا تو لوکل نیوز والوں کا میسج تھا۔
“بریکنگ نیوز: خاران ایف۔سی کی گاڑی کے قریب دھماکا،گاڑی تباہ, متعدد اہلکار جاں بحق”

باپ نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ موبائل رکھ کر سر تکیئے پر رکھا اور بیوی سے فخریہ انداز میں مخاطب ہوا، :نہ ہم اکیلے تھے اور نہ ہی کبھی اکیلے ہونگے، اب گر میرے بیٹے کی لاش بھی اس گھر میں آجائے تو بھی مجھے دکھ نہیں ہوگا کیونکہ اسکے خون کے ہر بوند کا بدلا وطن کے یہ حقیقی فرزند دشمن کے چیتھڑے اڑا کر لینگے۔”

یہ سن کر سب گھر والے سکون کے ساتھ سوگئے، صبح جب اٹھے تو عید سادگی کے ساتھ منائی جارہی تھی، جو ملا رات کو راشن کے لالچ میں پاکستان کے حق میں چلا رہا تھا، اسے بھی ہوش آچکا تھا اور اب وہ بلوچ فرزندوں کی رہائی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔

ابھی تو ہم نے شروع کہاں کی ہے
قربانی کا اصل جلوہ ابھی باقی ہے

گن گن کے جو درد دیئے تم نے
ہر درد کا حساب ابھی باقی ہے

ہزاروں جان قربان عشق پر
ہم پہ آزادی کا عشق ابھی طاری ہے

جس جنگ کا مداوہ کوئی نہیں
وہ جنگ ابھی جاری ہے