پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کا خسارہ 406 ارب تک پہنچ گیا

164

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) حکام نے انکشاف کیا ہے کہ قومی ایئرلائن کا خسارہ 406 ارب روپے تک جاپہنچا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو ملنے والے اطلاعات کے مطابق قونصل عاصم حفیظ کے ذریعے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی 23 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا کہ قومی ایئرلائن کے کل اثاثوں کی مالیت 111 ارب روپے ہے اور کرپشن کے باعث 2017 تک مجموعی نقصان 356 ارب روپے ہوا۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس جنوری میں پی آئی اے حکام نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ قومی ایئر لائن کا خسارہ 300 ارب روپے تک جاپہنچا ہے جبکہ اس خسارے میں ہر ماہ 5 ارب 60 کروڑ کا اضافہ ہورہا ہے۔

سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ قومی ایئرلائن ایک ماہ میں 7 ارب 50 کروڑ روپے کما رہی ہے جبکہ اس کے اخراجات 13 ارب 14 کروڑ روپے سے زائد ہیں۔

ایئرلائن کے بڑے اخراجات میں 4 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد قرضہ اور مارک اپ کی ادائیگی، 2 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد فیول اور 1 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد تنخواہوں کی ادائیگی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی آئی اے صرف حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد پر فعال ہے۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پی آئی اے کے طیاروں پر پاکستانی پرچم کے بجائے قومی جانور مارخور کی تصویر بنائے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے گزشتہ 10 سال کے خصوصی آڈٹ کا حکم دے دیا تھا.

طیاروں پر قومی پرچم کی جگہ ’مارخور‘ کی تصویر کی حوالے سے جواب میں مزید جمع کرائی گئی رپورٹ کہا گیا کہ پی آئی اے کا تکینکی عملہ پیشہ وارانہ صلاحتیوں اور قابلیت سے عاری ہے جس کے باعث ایئرلائن کو شدید بحران کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ پی آئی اے کے بیشتر فضائی روٹ مسلسل مالی نقصان میں ہیں جبکہ ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کیے گئے۔

علاوہ ازیں قومی ایئرلائن کا بزنس ماڈل اور آپریشنز کمپنی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کارکردگی بہتر کی جا سکتی ہے۔

رپورٹ میں گذ شتہ سال ہونے والے نقصانات کے حوالے سے کہا گیا کہ سیاسی مداخلت، فرائض کی ادائیگی میں ملازمین کی عدم سنجیدگی، متعدد طیاروں کا غیر فعال ہونا، شعبہ جات میں رابطوں کا فقدان اور ریونیو کی چوری کے باعث پی آئی اے مسلسل نقصان میں رہا۔

رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کسی پرانے سرکاری دفتر کی طرح کام کرتا ہے جس میں جدید خطوط پر بزنس ماڈل کی صورت نظر نہیں آتی اور بیوروکریسی کی جانب سے دفتر میں ماحول کی تبدیلی ناقابل عمل ہے۔

اسی طرح پر کرپشن اور محکموں میں زائد ملازمین سمیت یونینز کی سیاسی تعلقات کی بنیاد مداخلت سے کمپنی ترقی کرنے سے قاصر ہے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ یونین اور ایسوسی ایشنز احکامات کی بجاآواری میں بڑی رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ ایوی ایشن کی پالیسی کسی مقامی کارخانے کی مانند ہے جبکہ ماضی میں گلف کی مشہورفضائی کمپنی کو بنانے والی پی آئی اے کی انتظامیہ تھی۔