جبری طور پر بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالیکیمپ کو 3100دن ہوگئے۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3100 دن مکمل ہوگئے، وکلاء برادری سے تعلق رکھنے والے وفد نے کیمپ کا دورہ کر کے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں بلوچ خواتین کی کوئی عزت نہیں ہے، واشک اور تیرہ مل میں خواتین کے ساتھ جو ہوا وہ انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتی ہے لیکن اُن خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں کیونکہ وہ بلوچ ہے ۔ انصاف کے ایوانوں اور حکمرانوں کی بے حسی ایک طرف لیکن پاکستانی میڈیا بھی اس معاملے میں قفل لگائے بیٹھا ہے حالانکہ پاکستان میں بنت حوا کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و ستم پر میڈیا کی بریکنگ نیوز، تبصرے اور رپورٹوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لیکن جب معاملہ بلوچ عورت کے حقوق کی پامالی کا ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو بلوچ عورت اس سسٹم کا حصہ نہیں یا اس کے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں یا پھر شاید وہ عورت ہی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ اداروں نے پاکستانی میڈیا کو ڈرا دھمکا کر قابو کر لیاہے اور میڈیا اپنی بقا کی خاطر بلوچوں کے معاملے میں اندھا گونگا اور بہرہ بن گیا لیکن دوسری طرف بلوچستان کی صوبائی حکومت کی بے حسی پر سر شرم سے جھک جاتاہے، وہ بھی ایسی حکومت جس کا سربراہ خود ایک بلوچ ہو۔ وزیراعلی بلوچستان سے بہتر بلوچ معاشرے میں عورت کے مقام کو کون سمجھ سکتا ہے لیکن اُنہوں نے ایک مرتبہ بھی گوارہ نہیں کیا کہ وہ واشک میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے بلوچ خواتین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ۔
ماما قدیر نے کہاگو کہ آج کے پاکستان میں کسی بھی عورت کی غیرت و عزت محفوظ نہیں مگر اُن کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف میڈیا ، سول سو سائٹی اورکورٹ سومو ٹو نوٹس و حکومت کے فوری ایکشن سامنے آتا ہے لیکن بلوچ عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف وہ خاموشی ہی اختیار کرتے ہیں۔