“میں تو بولوں گا”
تحریر: رژن بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
“ہم اس قبضہ گیر ریاست کو بتانا چاہتے ہیں کہ جو شکست وہ بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں بھگت رہا ہے، وہ بلکل ایک صاف شیشے کی مانند ہے۔ ریاست اپنے مظالم سے ثابت کررہا ہے کہ بلوچ اورپاکستان کا رشتہ قابض اور محکوم کا ہے اور ہم اس وحشی ریاست کو بتانا چاہتے ہیں کہ جب تک ان کے یہ ناپاک قدم ہماری سرزمین پہ رہیں گے، ہماری جنگ آزادی جاری رہے گی۔ پاکستان تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت نہ اس جنگ آزادی کو روک سکتی ہے اور نہ ہی شکست دے سکتی ہے۔”
نہیں، یہ الفاظ قطعاً میرے نہیں ہیں اور نہ میرے اندر ایسے الفاظ ادا کرنے کی سکت ہے۔ یہ الفاظ اس آشوبی دانشور کے تھے جو معاشرے کے سامنے آکھڑا ہونا چاہتا تھا، اپنی بات ڈنکے کی چوٹ پہ کہتا تو تھا ہی لیکن اْسی لمحے آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر دیکھتا بھی تھا، اور مجال تھی جو کوئی اسے چپ کرا سکے، کوئی کچھ بھی کہتا تو وہ منطق کے ساتھ کہتا، “میں تو بولوں گا اور تمہیں سْننا پڑے گا، تمہیں آشنا ہونا پڑے گا۔” ہائے کیا انسان تھا۔ ڈھیلی کمیز، خاکی رنگ کا بستا لیئے کبھی کراچی تو کبھی شال، تو کبھی بلوچستان کے الگ الگ علاقوں میں بھٹکتا رہتا تھا۔ کیا موت پڑی تھی اْسے جو اپنے لیئے زندگی نہ جیا، شادی نہ کی، اپنا گھر نہ بسایا، اپنے ماں باپ بھائی بہن اور خونی رشتوں کو اہمیت نہ دی۔ زبان کی ترقی کی بھاگ دوڑ میں لگا رہا۔ شاید عاشق تھا جو اپنی محبوبہ کے لئے مارا مارا پھرتا تھا۔ باقی عام لوگوں میں ایسی بات کہاں، کسی میں بھی ایسا جنون نہ دیکھا، نہ سنا جو استاد صبا کی آنکھوں میں تھا۔ اتنا دیوانہ کے اپنا سارا مال کتابوں میں لگا دے اور بدلے میں مانگے تو بس کوئی ان کتابوں کے لمس کو محسوس کرے اور ان سے ویسا ہی عشق کرے جیسا وہ کرتا ہے۔ لیکن اس معاشرے میں دیوانے کی قدر و قیمت کہاں؟ یہاں تو لوگ دیوانے کو پاگل پکار کر اپنی راہ پکڑتے ہیں۔ لیکن اس میں وہ بات تھی جو مر کر بھی زندہ ہے اور اب تک بلوچستان یونیورسٹی میں نوجوانوں کے جھْنڈ میں بیٹھا دکھائی دیتا ہے اور کراچی میں اپنے ہاتھوں سے سجائی سید ہاشمی لائبریری میں بیٹھا کتاب پڑھتا نظر آتا ہے۔
ایسے دیوانے تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، جیسے سارتر فرانسیسی ہونے کے باوجود الجزائر پر فرانس کے قبضے کی مخالفت کرتا ہے اور ظلم کو ظلم لکھتا تھا۔
ایسا نہیں کے بلوچوں نے ادیب نہیں جنے، جننے کو تو ہم نے بھی کچھ شاہکارجنے لیکن وہ شاہکار سیاست اور ادب کو الگ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ادب کو سیاست سے کیا کام، ادب اور سیاست تو دل اور دھڑکن کی مانند ہیں، کیونکہ ہر دور کا ادب اس عہد کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انقلاب روس نے تو گورکی، نکولائی، لیوٹالسٹائی اور چیخوف جیسے ناموں کی نسلیں جنیں۔
میکسم گورکی کی ناول ماں کے بارے میں لینن فرماتے ہیں کہ انقلاب روس میں ماں ناول کا اہم کردار تھا۔ یہی فکشن ورک ہے جو جنگوں کو قلم میں قید کرکے صدیوں زندہ رکھتا ہے۔ لیکن ہائے بلوچ تئی بد بہتی۔
صبا دشتیاری بھی ظلم ہوتے وقت دوسرے ادیبوں کی طرح آنکھیں موندھ کر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ظلم کے خلاف باقاعدہ ظالم کو للکارتے تھے اور شاید ڈر سے تو کبھی اْن کا واسطہ نہیں پڑا کیوںکہ اْن کو معلوم ہی نہ تھا ڈر کس چڑیا کا نام ہے۔
‘‘”آپ سچ سے کیوں ڈرتے ہیں؟ میں تو بولوں گا، میں تو ضرور بولوں گا۔ ‘‘ یہ تاریخی الفاظ بھی شہید صبا کے ہی ہیں جنہوں نے کراچی پریس کلب میں کہے، ریاست نواز درباری صحافی نے صباء دشتیاری کو روکنے کی حتی الوسع کوشش کی جس پر استاد نے کہا میں سچ بولوں گا اور آپ کو سچ سننا پڑے گا۔ آخر موت اتنی بڑی شئے کیوں ہے، جو سچ اور حق کا راستہ روکتی ہے۔ ظلم کو ظلم نہ لکھنے والا زیادہ ظالم ہے اور تم سب ظالم ہو اور ریاست کے جرم میں برابر کے شریک ہو۔
استاد صباء کو بلوچی زبان سے دیوانہ وار محبت تھی، وہ بلوچی زبان کو وسیع اور عریض دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے، حتیٰ کہ اْن کا ارادہ تھا کہ وہ ‘‘ بلوچیالوجی‘‘ کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اور بلوچ نوجوانوں کے لئے باقاعدہ اکیڈمی سسٹم کا آغاز کریں۔ بلوچ تاریخ میں اداروں کے قیام کی تصور میں ایک کردارصبا دشتیاری کا بھی ہے۔ سید ھاشمی ریفرنس لائبریری اسی تصور کی ترجمانی کرتا ہے، جس کی بنیاد پروفیسر صباء دشتیاری نے ڈالی۔ بلوچ اور بلوچستان کے بارے میں کوئی بھی کتاب ہو، لائبریری میں ضرور میسر ملے گی۔ استاد کا وژن تھا بلوچی اینسائیکلوپیڈیا جو آج پروفیسر کے بعد بلوچ نوجوانوں کے ذمہ داری ہے کہ استاد کے وژن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
اس دیوانے کی دیوانگی اتنی شدت میں تھی کہ ہزار دھمکیوں کے باوجود خوف اس کے برابر سے بھی نہ گذرا اور 1953 لیاری ، کراچی میں پیدا ہونے والا دیوانہ، عاشق، 1 جون 2011 کو کوئٹہ میں اپنے سینے میں گولی کھا کر امر ہو گیا۔
وہ مرا تو نہیں البتہ تمام صحافیوں ، مصنفوں اور سیاست دانوں کی آنکھوں میں نیموں نچوڑ کر ہم سے جْدا ضرور ہو گیا۔ لیکن اْس کی آواز اب بھی کراچی اور کوئٹہ کی گلیوں میں گونجتی ہے اور کہتی ہے “میں تو بولوں گا، میں تو ضرور بولوں گا۔”