میں بند ہوں لیکن میرے خیالات آزاد ہیں – لیاقت بلوچ

438

میں بند ہوں لیکن میرے خیالات آزاد ہیں

تحریر: لیاقت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ: اردو کالم

میرے دشمن نے مجھے بند کرکے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میرے خیالات کو شکست دے کر مجھے دنیا اور صفحہ ہستی سے مٹایا جاسکتا ہے لیکن میں آج دنیا کے ان لافانی انسانوں جیسا ہوں، جنہیں آج دنیا یاد کرتی ہے۔

مجھے اغوا کرکے میرے ذات سے کئی باتیں اور رازیں نکلوا چکے ہیں، شاید میں کچھ نہ بتاوں لیکن ابھی میں انکے ہاتھ میں ہوں، میری زندگی اور موت کیلئے یہی سوچ رہے ہونگے۔ دشمن ابھی میرے سامنے بالکل اپنی شکست ثابت کر چکا ہے۔ میں چاہتا ہوں میرے زندہ رہنے کے مواقع بہت کم ہیں لیکن یہ میں جان سکتا ہوں کہ میں بہت دیر تک زندہ رہونگا کیونکہ میں ایک سوچ ہوں، ایک فکر ہوں، میں نوجوان طبقہ کیلئے ایک نظریہ ہوں، شاید میری جسم کو دشمن گولیوں سے چھلنی کرکے، میری لاش کو ایک ایسی ویرانے میں پھینکے، جہاں ہوا کو آنے کا ڈرہو لیکن میرا نظریہ بالکل زندہ رہیگا، وہ مشکل راہ جو میں نے اپنے قوم کے مستقبل کیلئے سوچا تھا، اسی راہ کے ہمسفروں سے ایک کم ہوگا لیکن وہ.منزل کے مسافر کھبی شکست اور احساس کمتری کا شکار نہیں ہونگے.

دشمن شاید میری آواز کو دبا دے لیکن میرے مرنے کے بعد دشمن کو میری نظروں اور میرے بنائے ہوئے راہوں سے ضرور ڈر لگے گا کیونکہ میری ہر وہ محنت و خواری جو میں نے کی ہے، وہ میری قوم کو ایک اچھی منزل کی طرف لے جانے کی ہے۔ میں ایک کتاب ہوں، میرے لفظوں کو ابھی ہزاروں کی تعداد میں دنیا کی کونوں میں پھیلنا ہے۔ میری ذات، میرے جسم کو کچل کر میری لاش کو جلا دو، مجھے ختم کرسکتے ہو لیکن وہ نظریہ، وہ راستہ جو میں نے بنایا ہے، اس راہ کے مسافروں کو کیا کروگے؟ اس منزل کے خواب کو لوگوں کے دلوں سے کیسے نکالوگے؟ میرے خیال میں تجھے مجھ سے زیادہ وہی سبق سکھا دیں گے، جو میں نے سرکلوں کے دوران اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا.

میں اپنی جدوجہد میں ایک حد تک کامیاب ہوں اور تھا کیونکہ اب زندانوں میں بند ہوں لیکن میں خود کو بند نہیں سمجھتا کیونکہ میں ایک سوچ ہوں، میں ایک زندہ درخت کی طرح پھلتا رہوں گا۔ میرے بتائے ہوئے لوگ، جو ابھی تک میری قومی جدوجہد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور آگے رکھیں گے۔ وہ میرے خیالات اور نظریات کے پابند ہیں اور اچھی طرح جدوجہد کررہے ہیں، میرے راہ کی وہ مسافر جو میرے بعد بھی منزل کی طرف گامزن ہیں، تو پھر میں کیسے خود کو ٹارچرسیلوں میں بند اور بیگواہ آدمی سمجھوں؟ کیونکہ ان کیلئے میں ابھی تک ایک مشعلِ راہ ہوں اور کئی میری بازیابی کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

یہ تحریر میں زندانوں میں بند اپنے دانشور، لیڈر اور استاد بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل عزت جان کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ جسے پاکستانی خفیہ اداروں نے کراچی سے اپنے ساتھیوں(چراغ، حسام، رفیق) سمیت اغوا کرلیا اور ابھی تک انکا کوئی حال احوال نہیں ہے۔ ابھی تک انکے ساتھیوں اور دیگر اسیران کی بازیابی کیلئے بلوچ مخلوق جدوجہد کررہی ہے۔ عزت جان نے اپنی زندگی کی ہر خوشی کو قوم کیلے قربان کیا اور اس نے اپنی زندگی میں قوم کی آزادی کی سوا اور کوئی امید نہیں رکھا۔

وہ نوجوان طبقے کے لیئے ایک استاد تھا، وہ اپنی زندگی سے بلوچ نوجوانوں کو عزیز سمجھتا تھا، وہ ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ ہم آج ریاستی اداروں کے ہاتھوں مارے یا اغوا کیئے جائینگے لیکن ہستی تو یہی نوجوان ہیں، جو نئی حکمت عملیوں کے ساتھ آکر بلوچ قومی جہد کو نئی جیت کا نام دیں گے۔ ریاست ہمیشہ بلوچ قومی جدوجہد میں اعلیٰ مقام کے لوگوں کو اغوا اور نقصان دینا چاہتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے اگر کسی گھر میں سب سے ذمہ دار کو نقصان ہوجائے تو سسٹم درہم برہم ہوجاتاہے۔ ریاست نے بلوچ تحریک میں ہمیشہ یہی کوشش کی ہے اور کئی مقامات پر کامیاب ہوا ہے۔ میں عزت جان کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن زیادہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنی اس تحریر کو آگے نہیں بڑھا سکتا.