میسی سے ملاقات کےلئے سائیکل پر انڈیا سے روس کا سفر

224

کلفین فرانسس انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے جب ان کے ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ورلڈ کپ کے لیے جا رہے ہیں؟

’بالکل‘، انھوں نے جواب دیا ’میں شاید عظیم الشان شو دیکھنے کے لیے روس کا سفر کروں‘۔

یہ بات گذشتہ سال اگست کی ہے لیکن فرانسس کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہاں سے کیسے روس جائیں گے۔

فرانسس انڈیا میں ریاضی کے فری لانس استاد ہیں اور وہ ایک دن میں 40 امریکی ڈالر کماتے ہیں۔

’میں نے محسوس کیا کہ میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے جس سے میں روس کا سفر اور وہاں ایک ماہ قیام کر سکوں۔‘ پھر میں نے خود سے پوچھا کہ سفر کا سب سے سستا ذریعہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب بائیسکل تھا۔

فرانسس کے دوستوں نے ان پر یقین نہیں کیا لیکن تب تک وہ اپنا ذہن بنا چکے تھے۔

فرانسس نے رواں برس 23 فروری کو اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے کیرالہ سے دبئی کا فضائی سفر کیا پھر وہ دبئی سے فیری کے ذریعے ایران پہنچے جہاں سے سائیکل پر روس کا دارالحکومت اب بھی 4,200 کلو میٹر دور تھا۔

ان کے لیے اس سفر کا انعام ان کے ہیرو اور ارجنٹائن کے معروف فٹبالر لیونل میسی کو دیکھنا تھا۔

فرانسس نے بی بی سی کو بتایا ’مجھے سائیکلنگ سے محبت ہے اور میں فٹبال کے بارے میں پاگل ہوں۔ میں نے اپنے دونوں جذبات کو اکھٹا کیا۔‘

انھوں نے پاکستان کے ذریعے سفر کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن انڈیا کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے انھیں یہ خیال ترک کرنا پڑا۔

’فٹبال اور فلمیں‘

فرانسس نے بتایا ’منصوبے میں تبدیلی مجھے بہت مہنگی پڑی۔ میں اپنی سائیکل دبئی نہیں لے جا سکتا تھا اور وہاں مجھے نئی سائیکل خریدنی پڑتی جس کی قیمت 700 امریکی ڈالر تھی۔ یہ طویل فاصلے کے سفر کے لیے بہترین نہیں تھا لیکن یہ سب کچھ میں برداشت کر سکتا تھا۔‘

لیکن جب 11 مارچ کو وہ ایرانی بندرگاہ بندر عباس میں داخل ہوئے تو اپنا عارضی دھچکہ بھول گئے۔

انھوں نے بتایا ’یہ دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے، یہاں کے لوگ بہت ملنسار ہیں، میں نے یہاں 45 دن گزارے لیکن میں یہاں ہوٹل میں صرف دو دن ٹھہرا۔

فرانسس ہر روز صرف دس امریکی ڈالر خرچ کرتے تھے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ ایران میں جہاں بھی گئے، لوگوں نے انھیں اپنے گھروں میں رہنے کے لیے مدعو کیا اور انھیں کھانا بھی دیا۔

ان کا کہنا تھا ’ایران کے بارے میں میرا خیال بدل گیا. مجھے احساس ہوا کہ آپ کو کسی ملک کے بارے میں جیو پولیٹکس پر مبنی رائے نہیں بنانی چاہیے۔‘

وہ ڈرامائی مناظر کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔

فرانسس کے بقول ’ایران کے خوبصورت دیہی علاقوں کی بدولت سائیکلنگ کم درد ناک ہو گیا تھا۔ میں ضرور واپس جاؤں گا۔‘

انھوں نے بتایا ’ایران کے لوگوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں روس میں ایرانی ٹیم کی حوصلہ افزائی کروں۔ ایرانی لوگ بولی وڈ سے بھی محبت کرتے ہیں اور اس چیز نے مجھے بہت سے مقامات پر لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں مدد کی۔

’یہ بالکل سچ ہے کہ فٹبال اور فلمیں دنیا کو متحد کرتی ہیں۔‘

وہ سائیکلنگ سے دبلے ہو گئے

فرانسس کا اگلا پڑاؤ آذربائیجان تھا جہاں کی سرحدی پولیس کو ان کے سفری دستاویزات کی تصدیق کرنے میں مشکل ہوئی کیونکہ ’مسلسل سائیکلنگ سے ان کا وزن بہت کم ہو گیا تھا‘۔

انھوں نے بتایا ’میں اپنے پاسپورٹ پر لگی ہوئی تصویر کی طرح نظر نہیں آیا۔ پولیس کو میری تفصیلات کی تصدیق کے لیے آٹھ گھنٹے سے زیادہ وقت لگا لیکن انھوں نے میرے ساتھ اچھا برتاؤ کیا۔‘

فرانسس آزربائیجان کے ہوٹلوں کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے اسی وجہ سے انھوں نے زیادہ تر پارکوں میں اپنا خیمہ لگایا۔

ان کا مزید کہنا تھا ’آزربائیجان کے لوگ بھی اچھے تھے لیکن وہ ایک اجنبی کے ساتھ بےتکلف ہونے میں زیادہ وقت لگاتے تھے۔ میں نے آزربائیجان کے دارالحکومت باکو میں رہنے والے چند انڈینز کو تلاش کیا اور ان کے ساتھ کچھ دیر ٹھہرا۔

’جہاں کسی کی عملداری نہیں تھی‘

جب فرانسس جارجیا پہنچے تو انھیں واپس بھیج دیا گیا اور انھیں ماسکو پہنچنے کے تقربیاً آدھے راستے کو دوبارہ تبدیل کرنا پڑا۔

انھوں نے بتایا ’میرے پاس تمام سفری دستاویزات تھیں لیکن مجھے ابھی بھی معلوم نہیں تھا کہ مجھے انٹری کیوں نہیں دی گئی؟ اس نے مجھے ایک غیر معمولی صورت حال میں چھوڑ دیا کیونکہ میرے پاس آذربائیجان کے لیے سنگل انٹری ویزہ تھا‘۔

مسٹر فرانسس جارجیا اور آزربائیجان کے درمیان ایک دن کے لیے ’نو مینز لینڈ‘ میں پھنس گئے۔ آخر کار حکام نے انھیں آذربائیجان میں دوبارہ داخل ہونے کا ارجنٹ ویزا دیا۔

انھوں نے بتایا ’مجھے پھر روس میں داخل ہونے کے لیے دوسرا راستہ تلاش کرنا پڑا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ آزربائیجان کی سرحد روس کے داغستان خطے سے ملتی ہے‘۔

’میں اس بات کو محسوس کیے بغیر کہ وہ جگہ محفوظ نہیں وہاں چلا گیا۔ لیکن میرے پاس واپس آنے کا کوئی آپشن نہیں تھا اور پھر پانچ جون کو میں داغستان میں داخل ہو گیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ داغستان میں زبان کا ایک بڑا مسئلہ تھا کیونکہ یہ لوگ مشکل سے ہی انگریزی میں بات کرتے تھے۔

فرانسس کے بقول ’لوگ ایک سائیکل پر ایک انڈین شخص کو دیکھ کر بہت حیران تھے‘۔ میں نے دوبارہ فٹبال اور فلموں کی عالمی زبان کو استعمال کیا تاکہ لوگ میرے ساتھ کھل کر بات کریں‘۔

اب فرانسس ٹامبوف شہر تک پہنچ چکے ہیں جو ماسکو سے 460 کلومیٹر دور ہے۔

انھیں 26 جون تک روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچنا ہے جہاں فرانس اور ڈنمارک کے درمیان فٹبال کے عالمی کپ کا میچ کھیلا جانا ہے۔

فرانسس نے بتایا ’یہ واحد میچ تھا جس کا ٹکٹ حاصل کرنے میں، میں کامیاب رہا‘۔

’لیکن میں ارجنٹائین کی ٹیم کو سپورٹ کرتا ہوں اور لیونل میسی میرے پسندیدہ کھلاڑی ہیں، میں ان کی پوجا کرتا ہوں۔ میرا خواب ہے کہ میں ان سے ملوں اور ان سے درخواست کروں کہ وہ میری بائیسکل پر دستخط کریں‘۔

فرانسس کو امید ہے کہ ان کا سفر لوگوں کو فٹبال اور فٹنس کے بارے میں متاثر کرے گا۔

ان کا کہنا ہے ’میں انڈیا کو کسی دن فٹبال ورلڈ کپ میں کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں اور یہ صرف اس وقت ہو گا جب انڈیا میں بچے زیادہ فٹبال کھیلنا شروع کریں گے۔ میں اگلے 20 برسوں میں اپنے امکانات کے بارے میں پر امید ہوں‘۔

میں امید کر رہا ہوں کہ لوگ میرے کہانی پڑھنے کے بعد سائیکلنگ شروع کریں گے۔

اگر میری کاوشوں سے انڈیا میں صرف ایک بچہ بھی فٹبال کھیلنا شروع کر دے تو میں خود کو کامیاب تصور کروں گا۔