موقع پرست اور انقلاب پرست ساتھ ساتھ
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
انتہائی مختصر تعارف کے ساتھ تحریکوں میں جہاں بھی یہ علامات ظاہر ہوں، یہ موقع پرستی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں، لاکھ خوبصورت وضاحت، دلیل اور تشریح کے ساتھ پیش خدمت کیوں نہ ہوں، مگر موقع پرستی ہی ہونگے، یعنی تحریک کے متحرک یا غیر متحرک شکل میں وابستہ ہوتے ہی ہمیشہ دولت، شہرت، طاقت، نمود و نمائش، آسائش، نام و مقام اور ذاتی حوالے سے کچھ نہ کچھ ذاتی مفاد حاصل کرنے کے عوض ہمیشہ موقع کے تاک میں بیٹھ کر مورچہ زن ہونا، موقع ملتے ہی موقع کو ضائع نہیں کرنا۔
ہمیشہ موقع ملتے ہی، موقع پرست اپنی آراء، سوچ، نقطہ نظر اور رویے کو اک دم تبدیل کرتے ہیں۔ تحریک، تنطیم، پارٹی اور مخلص کامریڈوں اور قوم پر کیا اور کیسے منفی اثرات مرتب ہونگے وہ موقع پرستوں کا درد سرنہیں ہے۔ موقع پرست تحریک، قوم اور سرزمین کے دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ دشمن ہمیشہ تحریک ظاہری طور پر حملہ آور ہوتا ہے اور دشمن ظاہر اور واضح ہیں لیکن موقع پرست تحریک کے اندر ہوتے ہوئے، خیر خواہ کی شکل میں تحریک کا ستیاناس کر دیتے ہیں اور جس حد تک موقع پرست، مخلص کامریڈز اور قوم کو تحریک سے بدظن مایوس اور بے دخل آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ دشمن اس طرح بلکل نہیں کرسکتا، دشمن کا زیادہ زور تشدد پر ہوتا ہے، تشدد سے تحریک اور مخلص کامریڈوں کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوتے ہیں، موقع پرست ہمیشہ مخلص کارکنوں کے مایوسی کا سبب بنے ہیں۔
ایسا نہیں کہ صرف بلوچ قومی تحریک براہے، آزادی کی جہد میں موقع پرست اور موقع پرستی کی رجحان آجکل بہت زیادہ ہے، جہاں بھی انقلابی اور انقلابی تحریک کا وجود رہا ہے، وہاں انکے وجود سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
باقی انقلاب اور تحریکوں کو فی الحال چھوڑ کر اگر ہم انقلاب روس کا جائزہ لیں، بالشویک پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور کامریڈ لینن کے دست راست جوزف اسٹالن، جو انقلاب کے بعد ہمیشہ ہدف تنقید اور حملوں کے نشانے پر تھا، اسٹالن کیسا رہنما تھا، اس کے بارے میں، اس کے موقف اور پالیسیوں کے بارے میں کل آراء کیا تھے، آج حقیقت کیا ہیں؟ یہ خود ایک طویل تحقیق اور الگ بحث ہے۔ بہرحال اسٹالن اپنے اوپر لگائے الزامات، خاص طور پر لیون ٹراٹسکی اور سخانوف گروپ کے افواہوں الزامات اور ہدف تنقید کے بارے میں کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی اور مرکزی کنٹرول کمیشن کے توسیعی اجلاس میں اپنا موقف یوں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “کامریڈز ان حملوں کا ہمیشہ نشانہ کیوں اسٹالن ہے؟ شاید اسٹالن موقع پرستوں کی عزائم اورحربوں کو ہمارے کچھ دوسرے کامریڈوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے اور میں یہ کہنے کی جرت بھی کرتا ہوں، مجھے آسانی کے ساتھ کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا۔ اس لیئے وہ بنیادی طور پر مجھے نشانہ بناتے ہیں۔ خیر انہیں اپنے دل کی تسلی کیلئے الزام تراشیاں کرنے دیجیئے۔ ٹراٹسکی ذینوویو اور کامینیواس بات کا قصہ سنا رہے ہیں کہ لینن نے اپنے وصیت میں کانگریس کو تجویز دی تھی کہ اسٹالن کی بدتمیزی کے پیش نظر کانگریس اسٹالن کی جگہ کسی اور کو جنرل سکریٹری کے عہدے پر لانے کے بارے میں غور کرے، یہ بات بلکل سچ ہے۔ ہاں کامریڈز میں بلکل ان لوگوں کیلے بدتمیز ہوں، جو اپنے موقع پرستی، بدکرداری اور غداری سے پارٹی اور انقلاب میں توڑ پھوڑ، انتشار، تقسیم اور مایوسی پھیلا رہے ہیں۔”
ٹراٹسکی ازم کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ انقلابی اور موقع پرست ایک ساتھ موجود رہ سکتے ہیں اور ایک ہی پارٹی میں گروہ اور حلقے قائم کرسکتے ہیں۔ اسٹالن اس حوالے سے کہتا ہے کہ اس “پیوند لگی پارٹی پالیسی اور سوچ نے بالشویک پارٹی کو تباہ کرنے کے مقصد کو پورا کردیا۔”
براہوہی زبان کا محارہ ہے کہ( لڈ اور لڈو )برابر نہیں ہوتے ہیں یعنی انقلابی اور موقع پرستوں کو ایک ساتھ رکھنا چلاناایسا جیسے گوبر اور مٹھائی کو ایک ساتھ رکھنا پھر کیا بنے گا؟ نتیجہ کیا نکلے گا؟
بلوچ قومی تحریک آج جس مقام پر پہنچ چکا ہے، اگر اسی طرح چلانا ہے، سب مطمئین ہیں، تو پھر کبھی نشیب کبھی فراز اسی طرح چلتا رہیگا بلکہ مزید کمزور اور پسپائی کا شکل اختیار کرتا رہیگا۔ نہیں اگر بلوچ تحریک آزادی کی تحریک کو مکمل سائینسی بنیادوں پر استوار کرکے عوامی تحریک کی شکل میں ایک قوت بخشنا ہے، تو پھر سب سے پہلے ہر سطح، ہر طریقے سے جہدوجہد کے تمام صفوں، بالا سے نچلا اور نچلا سے بالا سطح تک موقع پرستی، موقع پرستانہ سوچ اور کرداروں کا قلع قمع کرنا ہوگا اور ہر جگہ شدت کے ساتھ ایسے سوچ کے آخری انتہاء تک مخالفت اور نفرت کرنا ہوگا۔ نہیں تو موقع پرستانہ سوچ تحریک میں جتنا بھی شدت اختیار کررہا اور کرتا رہےگا، بربادی تحریک بلوچ قوم کا ہوگا اور فائدہ برائے راست دشمن کا ہوگا کیونکہ جو بھی عام بلوچ نوجوان یا بزرگ جب بھی شروع شروع میں بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنے گا، تو قومی جذبہ قربانی دشمن سے نفرت کے ساتھ اس کے ذہن میں صرف اور صرف مقصد کیلے دن رات کام ہوتا ہے۔
جب وہ تحریک سے وابستہ موقعہ پرستوں سے گھل مل جاتا ہے، تو اول وہ تحریک سے بدظن مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے، یا پھر وہ خود موقع پرستی کو اپناتا ہے، دونوں صورتوں میں نقصان قوم اور قومی تحریک کا ہوگا اور فائدہ دشمن کا ہوگا، یہ فائدہ دشمن کو اس کا ریاستی مخبر نہیں دے رہا ہے، تحریک کے اندر موقع پرست عناصر دے رہے ہیں۔ کیا پھر یہ ریاستی مخبر سے زیادہ خطرناک نہیں؟
پھر انقلابی جہد میں انقلابی اور موقع پرستوں کو ساتھ ساتھ چلانا کس مقصد کیلئے؟ وقتی تحریکی سرگرمیاں؟ وقتی دشمن کو نقصان؟ وقتی قوت دکھانے یا دوسرے پارٹیوں سے بازی لیجانے؟ لیکن مستقبل میں کیا نتیجہ نکلے گا۔ وہ اب سب کے سامنے ہیں پھر کیوں نہ بلوچ آزادی پسند تمام حقیقی ہم خیال و ہم فکر انقلابی تنظیموں و رہنماؤں اور کارکنوں کو ملکر بلوچ قومی تحریک سے موقع پرستانہ چاپلوسانہ سوچ اور کرداروں کی مکمل جڑ سے بیخ کنی کریں۔ نہیں تو کم از کم آج میری اس آراء کے ساتھ میرے ذات سے کوئی لاکھ اختلاف رکھے نفرت کرے، مجھے اس پر معمولی بھی پشیمانی نہیں ہوگا، میں آراء پر قائم تھا، قائم رہوں گا کہ موقع پرست اور انقلابی کو ایک ساتھ رکھنا وقتی پالیسی کے ساتھ کل بھی تحریک کیلے زہر قاتل عمل تھا، آج بھی زہر قاتل اور آئیندہ بھی زہرقاتل ہوگا۔