مقامی بلوچ آبادیوں کی جبری بیدخلی
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
چاکر سالار
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پاکستانی افواج کی جانب سےبلوچ آبادیوں کو اپنے کیمپوں کے اطراف آباد کرنے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ آوارن، واشک اورجھاؤ میں پاکستانی فوج کی جانب سے آغاز کردہ اس نئے مہم کے تحت نسلوں سے آباد مقامی آبادیوں کو انکے آبائی علاقوں سے بیدخل کرنے اور ان علاقوں کو خالی کرنے کے شدت میں تیزی آئی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں آباد بلوچ بستیوں کو فوج مجبور کر کے اپنے مرکزی کیمپوں کے پاس لاکر آباد کررہی ہے۔
فوج حکومتی سطح پر اس جبری مہاجرت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے، اس لیئے متاثرہ خاندانوں کو حکومت کی جانب سے سہولیات بھی میسر نہیں ہیں اور نا ہی کسی عالمی ادارے کی جانب سے انہیں آئی ڈی پیز تسلیم کرکے انکی مدد کی کوشش کی گئی ہے۔ ان واقعات سے میڈیا کو بھی دور رکھا گیا ہے، تاہم گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچ آبادیوں کے اس جبری بیدخلی کی کچھ تصاویر حاصل کرکے شائع کی تھیں۔
مزید پڑھیں
دی بلوچستان پوسٹ نے فورسز کی جانب سے بلوچ آبادیوں کو جبری طور پر خالی کرنے کی تصاویر حاصل کرلیں
صورتحال کو بہتر جاننے کیلئے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے نے ایک متاثرہ خاندان سے اس حوالے سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ “ہمارے صدیوں سے آباد علاقوں سے ہمیں بیدخل کیاجا رہا ہے، جن لوگوں کو جبری طور پر ہجرت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، انکا تعلق مالداری یا زمینداری کے شبعے سے ہے۔ ہمارے گذر وبسر اور آمدنی کا واحد ذریعہ یہی بارانی زمین اور مال مویشی رہے ہیں، انکے بغیر یہ عمل ہمارا اجتماعی قتلِ عام ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ “فوج کی جانب سے شروع کردہ اس مہم میں بظاہر کوئی بھی انتظامی تیاریاں دیکھنے میں نہیں آرہی ہیں، بس یہ حکم دیا گیا ہیں کہ اپنے علاقے چھوڑ کر فوجی کیمپوں کے پاس آباد ہوجائیں۔”
مستند علاقائی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق آج گزی کے پہاڑی علاقوں میں نسلوں سے آباد عبداللہ ولد سفر خان، محمد حسین ولد سفر خان، مرادبخش ولد عبداللہ ،جمعہ ولد عبداللہ ،حسن ولد بشو شفیع، محمد ولد حسن ،رسول بخش ولدسخی داد، قاسم ولداللہ داد بشمول 50 قریب گھرانوں کو سکیورٹی فورسز نے جبری طورپر بگاڑی زیلگ کے آرمی کیمپ کے قریب منتقل کردیاہے۔
میڈیا نمائندوں کے مطابق جبری منتقلی کے شکار خاندان شدید گرمی کے موسم میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان لوگوں کے پاس نہ اشیائے خوردونوش ہیں اورنہ ہی سرچھپانے کے لیئے کوئی سایہ، جھاؤ میں گذشتہ نو دنوں سے آپریشن کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے، جس دوران لوگوں پر فورسزکی جانب سے تشدداورجبری منتقلی میں شدت آرہی ہے۔ اپنے گھر بار چھوڑنے سے انکار کرنے والوں کو اغواء کرکے لاپتہ کرنے کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔
کچھ عرصے قبل بلوچ آبادیوں کے جبری منتقلی کے بابت جب دی بلوچستان پوسٹ نے بلوچستان کی سب بڑی قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان دلمراد بلوچ سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ ” دراصل فوج پہاڑی سلسلوں میں آباد آبادیوں کو فوجی کیمپوں کے قریب منتقل کرنا چاہتاہے، پہلا مقصد متوقع نام نہادانتخابات میں لوگوں سے زبردستی ووٹ ڈلوانا ہے، دوسرا مقصد پہاڑی سلسلوں میں آباد لوگوں کے بارے میں فوج سمجھتاہے کہ یہ لوگ سرمچاروں کی مدد کرتے ہیں، اس لیئے بلوچستان کے اکثرعلاقے بالخصوص آواران، کولواہ، جھاؤ، مشکئے، گچگ، راغئے کے پہاڑی سلسلوں میں آباد لوگوں کو فوج نقل مکانی پر مجبورکررہاہے، اس واقعات رونما ہوچکے ہیں ڈرانے دھمکانے کے باوجود جب لوگوں نے اپنے آبائی علاقے چھوڑنے سے انکار کیا ہو، تو پھر علاقے کے پانی کو زہر آلود کرکے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہو۔”
مزید پڑھیں
ٹڑانچ – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
اس حوالے دی بلوچستان پوسٹ نے دوسری آزادی پسند جماعتوں کی موقف جاننے کی کوشش کی تو اُن کا کہنا تھا کہ “زبردستی علاقے خالی کرانے کا عمل گذشتہ طویل عرصے سے جاری ہے، اس سے قبل سی پیک روٹ کے اردگرد سینکڑوں بستیوں کو خالی کراکے، گھروں کو نظر ِآتش کیا جاچکا ہے۔ اب ان جنگ زدہ علاقوں میں عام آبادی کو کیمپوں کے گرد آباد کرنے کا مقصد، معصوم شہریوں کو اپنے بچاؤ کیلئے انسانی شیلڈ کے طو ر پر استعمال کرنا ہے۔ تاکہ بلوچ مزاحمت کاروں کے حملے میں وہ بچ سکیں۔ یہ عالمی جنگی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کےاس جبری مہم سے واشک طرز کے واقعات میں شدید اضافہ ہوسکتاہے، جہاں خواتین کو فوجی کیمپ منتقل کرکے انکے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔”
واضح رہے کچھ روز قبل معروف آزادی پسند بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے پاکستانی فوج پر بلوچ خواتین کے اغواء اور انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ چار جون کو ضلع واشک کے علاقے ناگ رخشان میں امدادی سامان کی تقسیم کے نام پر خواتین کو زبردستی فوجی کیمپ منتقل کرکے انہیں زدوکوب اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ایک حاملہ خاتون کو اسقاطِ حمل پر مجبور کیا گیا تھا۔