مفاد پرست کارکن، کب تک – نودان بلوچ

1266

مفاد پرست کارکن، کب تک

تحریر:نودان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

ان چیزوں پر قلم آزمائی کا دل نہیں کرتا، جو اپنے ہی اداروں کے خلاف ہوں، اُن پر انگلی اٹھانے کی گستاخی کرنا نہیں چاہتا لیکن آج جب ان پر نکتہ چینی کر رہا ہوں، تو بس ان کے غلط پالیسیوں کی وجہ سے اگر ایمانداری سے بولا جائے یہاں ہر ادارہ دوسرے کو اور دوسرا تیسرے کو قوم پر بوجھ سمجھتا ہے۔

ہم اپنے اداروں کو چمکانے میں لگے ہیں، جب بھی کوئی قابل مذمت عمل کسی ادارے کی طرف سے ہونے کی شک ہو تو دوسرے ادارے کے کارکن(جہدکار) اُس ادارے کے خلاف ایسے کھڑے ہونگے، جیسے ہم اپنے حقیقی دشمن کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے۔ جن اداروں میں، جس جہدکار میں زیادہ قابلیت ہے، جس کا قوم میں ایک نام ہے، اسکے ذریعے ہم دوسرے اداروں کو اپنے بے بنیاد حرکتوں سے نقصان پہنچانا شروع کرتے ہیں اور اسی ادارے میں یہی جہدکار جو ان چیزوں کو بڑے شوق سے قلم بند کرکے خود کو ایک مخلص اور ایماندار جہدکار ثابت کرتا ہے، وہیں پر جب بات اس پر یا اس کے کسی اپنے پر آئے اپنے ہی ادارے کی طرف سے کوئی الزام لگے، تو وہاں ہماری جہدکاری و مخلصی غائب ہوجاتی ہے اور ٹھیک اُسی لمحے، ہم اپنے ہی ادارے کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بھلے ہی وہ الزام سچ کیوں نا ہوں، لیکن وہاں پر ہماری جہدکاری دھوکا کھاجاتا ہے کیونکہ بات خود پر آئی اور خود کو بچانے کیلئے ہم اپنے ہی ادارے اور ادارے کے ذمہ داروں پر ایسے الفاظ سے حملہ کرتے ہیں، جس سے کئی لوگ مایوسیت کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ جب کسی ادارے کا زِمہ دار کارکن خود ہی اپنے ادارے کو غلط کہہ رہا ہو تو وہاں ہر شخص کو اُسکی باتیں سچ لگتی ہیں کیونکہ وہ جس ادارے سے تھا، وہ اسی پر الزام لگا رہا ہے اور کہیں نا کہیں وہ الزام سچ ہوتے ہیں لیکن ہم پہلے کبھی سچ کا سہارہ لیتے دیکھائی نہیں دیتے۔ سچ کا سہارہ تب لیا جاتا ہے، جب بات خود پر آئے۔

میں ہر جہدکار کو نہیں کہہ رہا، یقیناً یہاں پر ایسے جہدکار تھے اور ہیں جنہوں نے اپنے دل کی خواہشوں کو مار کر بس اپنی زندگی اس عظیم مقصد پر قربان کیا اور کر رہے ہیں لیکن اسی جہد میں ایسے کارکن ہزاروں میں ہیں، جو مفاد پرست ہیں، جو بس اپنے مفاد میں ساتھ ہیں یا قبیلہ گِری یا اپنے پن کی وجہ سے ساتھ ہیں۔

اس راہ میں بس اپنا ادارہ اور اپنے لیڈر کو صحیح مانا جاتا ہے، ہم کہتے تو یہ ہیں کی جہد آپ سے نہیں آپ جہد کی وجہ سے ہیں۔ لیکن یہ بس منہ سے نکلی ایک بے معنی بات ہے۔ سچ میں دیکھا جائے تو یہاں ہم اپنے ادارے اور لیڈر کی وجہ سے جہد پر ہیں۔ ہمارا دھیان اور ایمانداری جہد کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے ادارے اور لیڈر کے ساتھ ہے، جو عمل ادارے کی طرف سے ہو غلط ہی ہو لیکن ہم اس کو نا نہیں بولتے کیونکہ یہاں جہد مقصد کیلئے نہیں خود کے من پسند ادارے اور لیڈروں کو قوم کے ہیرو بنانے کیلئے جہد کیا جا رہا ہے، اگر ہم ذہنی حوالے سے پوری طور پر تیار ہوتے، تو ہم اپنے غلط اعمال پر خود کے اداروں کے خلاف ہوتے لیکن یہاں ہونا دور سوچتے بھی نہیں، نا سوچنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم جہدکار نہیں، بس ایک ادارے اور ایک لیڈر کے سچے پیروکار ہیں۔

پہاڑوں میں رہنے والے جہدکار، مادروطن کے سچے فرزند بھی اس ادارہ پرستی اور شخصیت پرستی اور مفاد پرستی سے بچ نہیں سکے ہیں، وہاں بھی ہر ایک کانٹوں والا راستہ اپنا کر چلا جا رہا ہے اور غلطیاں بہت ہوتے ہیں، کہیں علاقائی کمانڈروں کے زور پر عوام پر ظلم، تو کہیں کچھ اور غلط عمل۔

حالیہ دنوں کی بات ہے کے زامران میں ایک آئل ٹینکر والے کو مارا گیا، جب ادارے(تنظیم) کی طرف سے جواب طلب کی گئی تو تنظیم کے جہدکار تنظیم سے چھپ گئے اور جب انکی گرفتاری کیلئے سنگت گئے تو ان جیسے جہدکاروں کی وجہ سے ایک سنگت شہید ہوا، ہم ایسے عمل اسلیئے کرتے ہیں کیونکہ ہم ذہنی حوالے سے اس جہد کیلئے تیار نہیں، اگر نظریاتی طور پر تیار ہوتے، تو ایسے عمل نہیں کرتے، اگر کرتے تو ان پر ڈٹتے نہیں، معافی مانگتے۔ تنظیم کی طرف سے ملنے والی سزا کو قبول کرتے اور واپس اس جہد میں اپنا فرض ادا کرتے، لیکن ہمارے جہدکاروں میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا یہاں غلطی کرنے کے بعد بات خون خرابے پر آجاتا ہے لیکن پھر بھی ہم اپنی غلطیاں نہیں مانتے، ایسے بہت سے واقعات ہیں، جن کی مثال ہمارے سامنے ہے، اس بارے میں زیادہ بات کرنا نہیں چاہونگا۔

باتوں کا مقصد یہی ہے کے ہم میں سے بیشتر ذہنی حوالے سے اس جہد کیلئے تیار نہیں، جس طریقے سے آج ہمیں اس پاک مقصد کیلئے جہد کرنا تھا، اتنے وقتوں میں ہم نے نہیں کیا اور آج بھی وہی عالم ہے، جو پہلے تھا۔ تبدیلی کی گنجائش نظر نہیں آتی، کیونکہ اداروں کے کارکن ہی اپنے لیڈروں کے انا بنے بیٹھے ہیں، ہم اسی بات پر خوش ہیں۔
زمانہ معترف ہے ہماری استقامت کا
نہ ہم نے شاخ چھوڑی نہ ہم نے قافلہ بدلا
نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے رہنما بدلا

میں نہیں کہتا کے ادارہ بدلو یا لیڈر بدلو لیکن ہم جہاں پر ہیں، وہاں پر ایمانداری سے جہد کریں۔ صحیح عمل کسی بھی ادارے سے ہو اُس عمل کی حمایت میں پیش قدم رہیں، چاہے ہم کسی دوسرے ادارے سے وابستہ ہوں لیکن سچ پر کھڑا ہونا ہی منزل تک لیکر جائیگا۔ اُس منزل تک جس کیلئے شہیدوں نے اپنا خون بہایا۔ شہیدوں کے قربانیوں کا ذکر ہم اپنے ہر بات میں کرتے ہیں اور خود کو بچانے کیلئے شہیدوں کے خون کا سہارہ لیتے ہیں لیکن غلط کام کرنے کے وقت ان چیزوں کو ذہن میں نہیں لاتے کیونکہ ہم صرف باتوں کے جہدکار ہیں، جہد کے نقصان اور فائدے پر غورنہیں کرتے ہیں۔ بس وقتی طور پر جذباتی کام کر کے پچھتاتے بھی نہیں، بڑے دُکھ سے یہ کہنا پڑرہا ہے، ہمارا ایک بھی ادارہ پورے طریقہ سے صاف و شفاف نہیں، ہرادارہ غلطیوں سے لیس ہے اور ان غلطیوں کو سدھارا بھی نہیں جارہا کیونکہ غلطیاں جب مان لیئے گئے، تو ادارے کے امیج میں فرق پڑیگا اور ہم یہ قبول نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نظریاتی حوالے سے تیار نہیں۔

آج ہمارے پاس ادارے ہیں، اداروں میں لیڈر ہیں لیکن قوم کا لیڈر منتخب کرنے میں ناکام ہوئے، ادارے میں جس طرح ہم جیسے کارکن ہیں، ویسے ہی ہمارے لیڈر سب ایک دوسرے کے مخالف سچائی پر کھڑے ہونے کی طاقت اب تک کسی لیڈر یا اسکے پیروکاروں میں نہیں پائی گئی، ہر کارکن اپنے ہی لیڈر کو قومی لیڈر ثابت کرانے میں لگا ہوا ہے، نا قوم کے بارے میں سوچا جا رہا ہے نا مقصد پر نظر ہے، نظر ہے تو بس لیڈری پر۔

شوق لیڈری میں ہم نے کیا سے کیا نہیں کیا، اگر یہ سب کچھ مقصد تک پہنچنے کیلئے کیا ہوتا، تو آج ہم اپنے اداروں کے خلاف لکھنے پر مجبور نہیں ہوتے، آج جتنا دُکھ ہوتا اپنے اداروں کو لیڈروں اور کارکنوں کو دیکھ کر اتنی ہی خوشی محسوس کرتے۔ اگر ہم راہ راست پر ہوتے اور ہمارا جہد ایک بہتر مقام پر ہوتا 15 سالوں سے زیادہ لگاتار جہد کرکے بھی ہم ایک اچھے مقام تک نا پہنچ سکے کیونکہ وجہ ہمارے غلط پالیسیاں تھیں۔ اگر وہیں سے ہم اپنے غلطیوں کو ختم کرتے کرتے آتے تو آج حالات الگ ہوتے، لیکن اب گیا وقت واپس نہیں آسکتا، لیکن بس امید یہ ہے کے آگے بہتری ہوگی۔ ادارے خود کو مضبوط کرکے افراد پر نہیں چلینگے اور فرد بھی راہ راست پر آجائینگے، ایک وقت تو آنا ہی ہے لیکن کہیں آتےآتے دیر نا ہوجائے کیونکہ جس طریقے سے چل رہے ہیں، اس طریقے سے منزل نہیں ملے گی، منزل کو حاصل کرنے کیلئے ایمانداری سے جہد کرنا ہوگا۔ اس طرح چلنا خود کو دھوکا دینا ہے، خود ہی خود کے خلاف نا ہوں قوت طاقت دشمن پر آزمانے کا وقت ہے، اپنوں کو نقصان دینے کی بہت کوشش کی گئی، اب دشمن کو نقصان دے کر قوم دوستی کا ثبوت دیں اور دنیا میں خود کو زندہ قوم ثابت کرنے کیلئے جہد کریں۔

جہد ایک بہتر عمل کیلئے۔۔۔
جہد حصول مقصد کیلئے۔۔۔