مزاحمتی بیانیہ سے متبادل بیانیہ تک – شیہک بلوچ

377

مزاحمتی بیانیہ سے متبادل بیانیہ تک

تحریر : شیہک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

جب بھی کہیں قبضہ ہوا ہے تو قبضہ طاقت کی بنیاد پر ہی ہوا ہے اور اس گمراہ کن طاقت کی بنیاد نے قبضہ گیر یا نوآبادکار اور مقامی باشندہ یا پھر دیسی کے رشتے کو جنم دیا یا پھر جسے ایڈورڈ سعید نے “ہم اور تم” کا درجہ دیا یا جسے فینن نے اول اور آخر کہہ کر دو انتہاؤں کی حقیقت بیان کردی اور جن کے پرتضاد رشتے کی کشمکش سے ہی اس گمراہ کن طاقت کا رخ موڑا جاسکتا ہے لیکن نوآبادیات کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، وگرنہ جب حقائق سے منہ موڑا جاتا ہے، تب اس کا حاصل حصول ماسوائے ناکامی کے کچھ نہیں۔ ہم آج جب کسی مسئلے کو نوآبادیاتی نظام سے الگ تھلگ کرکے سطحی طور پر رائے قائم کرلیتے ہیں، تو ایسے میں ہم کسی خاطر خواہ نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیں نوآبادیات کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا اور فینن نے جس طرح بیان کیا ہے کہ یہ نوآبادیاتی دنیا دو حصوں میں بٹی ہے، اگر سمجھ نہ آئے تو ملٹری کنٹونمنٹس اور اپنے علاقوں کا ایک جائزہ لیں فرق واضح ہوجائیگا کہ دیسی کی بدحالی اس کا اپنا اختیار اس کی اپنی نالائقی نہیں بلکہ نوآبادیاتی شکنجوں نے اسے یہاں تک پہنچایا ہے اور یہ حالت بدلی جاسکتی ہے، یعنی اول کو آخر اور آخر کو اول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ضرورت وقت و حالات کو سمجھتے ہوئے جدوجہد کی راہ ہموار کرنے کی ہے۔

      ہم جب نوآبادیات کی حقیقت کو تسلیم کرلینگے، تب ہمارا مزاحمتی بیانیہ بھی متبادل بیانیہ میں تبدیل ہوگا، جو نیشنلزم کی حقیقت ہے اور اسی سے ہمیں نوآبادکار روکنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ہم محض مزاحمتی بیانیئے پر اکتفا کریں کیونکہ مزاحمتی بیانیئے پر وہ اثر انداز ہوسکتا ہے، جب کہ متبادل بیانیہ اس کے لیئے زہر قاتل ہے۔ مزاحمتی بیانیہ ایک حد تک چلتا ہے اور ابتدائی مرحلے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ ایک سطح پر آکر کام نہیں دیتا بلکہ اس کی جگہ متبادل بیانیہ کو فراہم کرنا پڑتا ہے لیکن ہم جب مزاحمتی بیانیہ پر مسلسل اکتفا کرینگے، تب ایسے میں تحریک میں وہ خصوصیات منتقل ہوتی جائینگی جو نوآبادکار کے ودیعت کردہ ہوتی ہیں کیونکہ مزاحمتی بیانیہ ایک ری ایکشنری بیانیہ ہوتا ہے، جبکہ از سر نو تشکیل کے لیئے متبادل بیانیہ درکار ہوتا ہے۔ ہم مسلسل ناکام ہوتے ہیں، اس لیئے کہ ہم اپنے جدوجہد کو متبادل بیانیہ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی لیئے نفسیاتی حرکتوں کا اندیشہ رہتا ہے۔ جو جہدکاروں کے لیئے جہد کو مزید کھٹن بنا دیتا ہے۔

      ریاستی بیانیہ براہ راست نہیں ہوتا بلکہ اس کے نمائندے بھی ہوتے ہیں، جو اس بیانیئے کو پھیلاتے ہیں، اس کے نمائندے نوآبادیات کی حقیقت سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تعلیم سے لے کر صحافت اور خاص کر سیاست میں مداری جو کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تعلیم میں موقع پرست اور ذات پرستی کا پرچار اور سیاست میں ذاتی پہچان و تعلقات محض ذاتی و گروہی مفادات تک محدود رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے اور شخصیت پرستی و قبائلیت کے خول میں بند کیا جاتا ہے۔ ایسے میں نمائندے شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار ثابت ہوتے ہیں اور نوآبادیاتی نظام کے مشین کو چلانے کے لیے ایندھن فراہم کرتے ہیں لیکن مقامی باشندے کی زندگی ابتر ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ ایسے میں جدوجہد کے تقاضے سمجھنے کی بجائے خوف زدہ ہوکر سب کچھ تقدیر کے حوالے کردیتا ہے۔ ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ بلوچ جہد آزادی جاری ہے اور آج کا بلوچ جہدکار بلوچ نوجوان بلوچ قوم کی تقدیر کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے اور جدوجہد کو از سر نو منظم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔

ایسے میں ریاستی اداروں کی جانب توجہ دلانے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ نوآبادیات کی حقیقت سے انکار کرکے کس مقامی باشندے کو منزل ملی یا کوئی انرجی ملی۔ پچھلے اڑسٹھ سالوں سے پارلیمانی سیاست کو آزمایا جاتا رہا لیکن بلوچ کے قسمت میں سوائے مسخ شدہ لاشوں کے کچھ نہیں آیا، تو پھر کیوں اس ریاستی بیانیہ کا حصہ بنا جائے جو تحریک کو کمزور کرنا چاہتی ہے dilute کرنا چاہتی ہے اور ریاستی بیانیہ کا نمائندہ بن کر غلامی کو طول دینے کی بجائے نوآبادیاتی نظام کے خلاف طویل اور صبر آزما جدوجہد کا حصہ بننا چاہیئے جس کی منزل بلوچ قوم کو ایک نیا بہتر سماج دلا سکتا ہے۔