لہو پھر لہو ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا – زوہیب بلوچ

666

لہو پھر لہو ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

تحریر: زوہیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم 

چودہ اگست 2004 اسکول پروگرام میں اسٹیج پر کھڑے ایک نوجوان کے الفاظ
ظلم پھر ظلم ھے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ھے
لہو پھر لہو ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
سانولا رنگ، بڑے بال، ڈائس پر کھڑا ہاتھ میں قلم اور سامنے رکھے کاغذ پر لکھے تقریر کو ختم کرنے کے بعد، اختتام میں ہاتھ اچھالتے ہوئے یہ شعر پڑھ کر اسٹیج سے مسکراتے ہوئے اتر گیا۔

یہ الفاظ کس قدر اہمیت کا حامل ہیں، آج میں یہ سمجھ سکتا ہوں، پر اُس وقت میرا مرکزِ توجہ اس نوجوان کے چہرے کے تاثرات رہے۔ جس قدر خلوص ان الفاظ میں تھی، جس قدر سچائی اسکے آنکھوں میں تھی، وہ دیکھنے کے قابل تھا۔ اسکے ادا کیئے الفاظ کا انداز ہی بتا رہا تھا کہ اس نے ان الفاظ کو بخوبی جانچ پڑتال کے بعد ہی مکمل ہوش و حواس میں قبول کرکے ان پر ڈٹے رہنے کا ٹھان لیا ہے۔

آج معلوم ہوتا ہے 14 سال پہلے ادا ہونے والے الفاظ نے اپنا مسیحا چن لیا تھا، آج معلوم ہوتا ہے ان الفاظ کو ادا کرنے والے نے اپنا رستہ بہت پہلے سے چنا ہوا تھا، وگرنہ اسکول میں ریاست کے لیئے سجے اسٹیج پر ریاست کے آزادی کے پروگرام میں ریاستی اساتذہ کے سامنے کھڑے ہوکر کون ایسی حماقت کرے گا۔ اس ایک کے سوا جو پاگل پن کی حد تک اپنے وطن کو مادر مان کر اس پر مر مٹنے کا تہیہ کیا ہو۔

اس نے ٹھان لیا تھا، وہ جانتا تھا کہ ظلم تو ظلم ہے مٹ ہی جانا ہے اسے۔ مگر اسے مٹانے اسے نیست کرنے کا جو عمل ہوگا اس میں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اسکے لیئے ہمیں خود جہد کرنا پڑے گا۔ اس ظلم کے خلاف جنگ کرنا ہوگا۔ اس جنگ کا خود حصہ بننا ہوگا . اس کا سوچ تھا کہ ہم لڑینگے اس وقت تک جب تک ہم کامیاب نہیں ہوتے، ہم لڑینگے اس وقت تک جب تک ہم لڑ سکتے ہیں کیونکہ ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

اسی سوچ کے پہلو میں اس نے اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہر عمل کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا، وہ اپنا رستہ چنتا گیا، کانٹوں بھرے سفر کو وہ مسلسل جارے رکھے ہوئے تھا، وہ کبھی تھکاوٹ کا شکار نہ بنا، وہ کبھی ان الفاظ کا مفہوم کو رد کرنے کی کوشش نہیں کیا، اس نے کبھی رکنے کا نام نہیں لیا، وہ چاہتا تو اپنے ہمرا ہم عمروں کی طرح الفاظ کہہ کر بھول جاتا، وہ چاہتا تو انکی طرح لفاظی انسان بن کر آگے بڑھتا، وہ چاہتا تو رک کر اپنے ذات میں کھو جاتا۔ وہ بس چلتا رہا سفر در سفر اپنے منزل کی جانب ہر ایک کو اپنا ہم خیال بناکر آگے بڑھتا رہا۔ وہ کئی محاذوں پر اسی سوچ کے ساتھ لڑتا رہا دشمن سے کہ، ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

وہ اس شعر کے دونوں مصروں سے بخوبی واقف تھا، وہ یہ جانتا تھا لہو پھر لہو ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔

وہ ایک سپاہی، ایک زانتکار، ایک سیاسی استاد رہا، وہ ایک گوریلا تھا جو ہر وار سے بچ نکل کر اور زیادہ تیزی سے اور محنت سے کام کرنا چاہتا تھا۔ وہ ہر وقت تیار تھا مادر وطن کی پکار پر لبیک کہنے کو۔ وہ موت کے اس پہلو سے ضرور ڈرتا ہوگا اس لیئے کہ اسے جینا چاہیئے اور کام کرنے کے لیئے اور سنگت بنانے کے لیئے اور سیکھنے سیکھانے کے لیئے وہ ہر سمت بڑھتا چلا گیا، دوست بناتا چلا گیا، کام کرتا چلا گیا اس کا ثانی سیاست میں بھی نہیں تھا۔ وہ سیاست کے ہر پہلو سے واقف رہا، وہ زندگی کے ہر صورت سے آگا رہا، وہ جنگ کے ہر چال سے واقف تھا، وہ سیاست سے جنگ تک ایک نڈر بلوچ بن کر آگے بڑھتا رہا، اسے آخری لمحے تک چلنا تھا، جہاں اسکے آخری مصرے کے الفاظ کو انکی منزل مل جاتی، اسے یقین تھا کہ
لہو پھر لہو ہیں ٹپکے گا تو جم جائے گا

ضیاء عجیب شخص تھا یا عظیم، عجیب اس لیئے کہ کسی شے کی پروا نہ تھا، کسی شے کا لالچ نہ تھا۔ کسی شے سے غرض نہیں تھا۔ نہ گھر کا سوچ، نہ اولاد کا فکر، نہ ہی اپنے ہم عمر لوگوں کے زندگی سے غرض۔ عظیم اس لیئے کہ اس قدر اپنے مقصد کو اپنی زندگی سمجھنا، اپنے زندگی کو آزادی کے لیئے وقف کر دینا، اپنے سوچ پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہنا ہر مشکل ہر مصیبت کو قبول کرکے اس سے نکلنے کا رستہ تلاش کرلینا۔

شہادت و شہیدوں میں کوئی درجہ بندی نہیں ہوتا، ہر شہید کی جدائی تمام شہداء بلوچستان کے زخم کو تازہ کر دیتی ہے۔ مگر سفر کے پہلے سیڑھی سے، اس آخری گولی تک کا سفر ہی وہ شے ہوتا ہے، جو ایسے عظیم لوگوں کے کمی کا احساس ہر وقت دلاتا رہتا ہے۔

ضیاء جیسا انسان جو ایک سیاسی پلیٹ فارم سے اٹھ کر ایک سیاسی استاد بنا، ایک گوریلا سپاہی کے شکل میں لڑ کر وہ ٹِک تیر سے کمانڈر بنا۔ ایک اکیلا نکلا تھا کئی ساتھ جوڑ کر لایا، یہ سب ہمیں بتاتے ہیں کہ اس پورے سفر میں ضیاء کبھی آرام سے بیٹھا نہیں تھا۔ ضیاء ہر لمحے کام کرتا رہا ہے، سوچتا رہا ہے، رستے تلاش کرتا رہا ہے، ضیاء اگر ٹہرا بھی تھا تو اپنے زمہ داروں کو دیکھ رہا تھا، ضیاء اگر بڑھنے لگا تو اس نے رستہ تلاش کیا تھا، ضیاء اپنے نام کی طرح تھا، بس کچھ لوگ اپنے بینائی کی وجہ سے ضیاء کے خیال و عمل سے انجان رہے۔

مگر ضیاء انجان نہیں رہا، وہ چلتا رہا، رستے بناتا رہا، منزل کی جانب کاروان بڑھاتا رہا، اس نے جھالاوان کا کمان سمبھالتے ہی ہر سمت دوست بنائے۔ انکی سیاسی و جنگی تربیت کرتا رہا۔ انکے ہر اس پہلو سے آگاہ کرتا رہا۔ جو آگے انکے ساتھ انکے جدوجہد میں کام آئینگے، وہ جنگی کاموں کے ساتھ ساتھ سیاسی و سوشل کاموں میں بھی دوستوں کو کام سونپتا رہا اور ہر ایک کو اسکے مزاج کے مطابق مہربان دوست، مہربان بھائی بن کر سمجھاتا رہا. طویل خاموشی کے بعد جھالاوان میں پھر سے تنظیموں کی آواز بتا رہی ہے کہ ضیاء ایک سوچ کو زندہ کرنے آیا تھا۔

ضیاء! بہت مشکل ہوتا ہے، اپنے شروعاتی الفاظ پر اپنے آخری گولی تک ڈٹے رہنا
ضیاء! بہت مشکل ہوتا ہے ان سالوں کو سفر در سفر میں گذار دینا
مگر آپ کے لیئے نہیں یہ آپ نے ثابت کردیا آپ کا سفر کئی سالوں سے کئی مشکلوں سے ہوکر گذرا ہوگا، مگر ان 14 سالوں کا سفر بتاتا ہے کہ ضیاء کے قدم کبھی بھی نہیں ڈگمگائے۔
ضیاء بس کام کرنا جانتا ہے، وہ دشمن ہر وار کرنا جانتا ہے، وہ تنظیم کو منظم کرنا جانتا ہے، وہ مقصد پر ڈٹے رہنا جانتا ہے، وہ مرکر بھی زندہ رہنا جانتا ہے، ضیاء امر ہے کیونکہ اسکا لہو ٹپکا اور جم گیا، اب آنے والے کئی نسلوں تک یہ خوشبو بھرا پیغام بکھیر تی رہے گی کہ
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
کیونکہ ضیاء پوری طرح اس بات سے متفق تھا کہ
لہو پھر لہو ہیں ٹپکے گا تو جم جائے گا