لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا درد
محسن بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں، اس معاشرے کا ہر فرد انفرادی مفادات کی خاطر زندہ ہے، اسے کسی کے دکھ درد سے کچھ سروکار نہیں۔ اس معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کی اپنی دکھوں بھری داستان ہے اور ہر فرد اپنے غموں کو ہلکا کرنے کی تگ و دو میں پڑا زندگی کے دن گن رہا ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا مسئلہ ایک ایسا رخ اختیار کرچکا ہے کہ جس سے منہ موڑنا خود کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہوگا کیونکہ ہمارا بزدل دشمن صرف بلوچ ہونے کی بنیاد پر نوجوانوں اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کررہا ہے۔ اس مسئلے پر خاموشی اور اس مسئلے کو ایک خاندان کا مسئلہ سمجھ لینا اپنی اور اپنے قوم کو بربادی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ لیکن باعث افسوس کہ ہم نے اس مسئلے کو چند خاندانوں کا مسئلہ سمجھتے ہوئے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔
ہم اسی تصور میں جی رہے ہیں کہ میرے گھر والے محفوظ ہیں، میرے والد، بھائی، شوہر بیٹے اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گذار رہے ہیں۔ مجھے ان جبری گمشدگی کے مسئلے سے کوئی سروکار نہیں، میں زندہ ہوں، میری ضروریات زندگی کی ہر شئے میرے زیر استعمال ہے۔ ایسے سوچنے والے انسانوں کا ضمیر کب کا مرچکا ہے، جو ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں انسانوں کو جانوروں کی طرح کاٹا جاتا ہے اور انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں اور نوجوانوں کو دن دہاڑے اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے اور وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں، ایسے انسان جو یہ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ میرا مسئلہ نہیں میں کیوں ان چکروں میں پڑوں۔ ایسے انسانوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ میں کیوں لاپتہ افراد کی بازیابی کا حصہ بنوں، میں کیوں مہلب ،سمی، سیما ، خدیجہ فرزانہ اور حمیدہ کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھوں۔ اگر انکا بھائی یا والد زندانوں میں نو سالوں سے لاپتہ ہے۔ مجھے کیا میرے گھر میں تو خیر و سلامتی ہے۔ اس نے میرے لئے آواز اٹھایا، کیوں میرے لیئے آواز اٹھایا، اس نے بلوچ کی خاطر آواز اٹھانےکا کیوں فیصلہ کیا، وہ اس جھنجھٹ میں کیوں پڑے اور میں کیوں انکے گناہ کا حصہ بنوں؟ میں تو اچھا خاصا جی رہا ہوں۔ میں نے اسے کب کہا کہ وہ مسنگ پرسنز کے لیئے آواز اٹھائیں۔ وہ خود اس راہ کا حصہ بنا اور بات ختم۔
مہلب اس ملک میں انسانی حقوق کی راگ الاپ رہی ہے، جہاں چڑیوں کو چوچو کرنے کی اجازت نہیں، ہاں اگر اس کا والد چوری کے جرم میں قید ہوتا یا قتل کے جرم میں گرفتار ہوتا تو اس کو شاباشی ملتی اور وہ کچھ دنوں بعد رہا ہوجاتا لیکن وہ آزادی و حقوق کے جرم میں گرفتار ہوا ہے۔ جو اس ملک میں گناہ عظیم ہے، مہلب و سمی کا درد محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ معصوم کلی جس کے ہنسنے کھیلنے، پڑھنے لکھنے کے دن ہیں، وہ کیوں پریس کلبوں کے سامنے بازیاب کرو بازیاب کرو کے نعرے لگا رہے ہیں؟ کیوں ملہب عید کے دنوں خوشیاں منانے کے بجائے والد کی فوٹو لیئے شوق سے پریس کلب جاتی ہے؟ وہ کیوں خوشیوں کو اپنے قریب آنے نہیں دیتی، مہلب نو سالوں سے اس درد سے گذرہی ہے، ایک معصوم بچی جسے اس عمر میں سب سے زیادہ ضرورت ماں باپ کی ہوتی ہے۔ نو سالوں سے باپ کی شفقت سے محروم ہے۔ اس پر کیا گذر رہی ہے؟
ہم پتھر دل رکھنے والے اس بات کا احساس کیا کرینگے، نوسال مذاق کی بات نہیں، کسی بھی انسان کو آپ ایک دن کسی کمرے میں بنا تشدد کے بند کریں وہ یہ تکلیف برداشت نہیں کرسکتا لیکن ڈاکٹر دین محمد اور دوسرے بلوچ اسیران نونو دس دس سالوں سے ٹارچر سیلوں میں مقید ہیں اور انکے اہلخانہ کس کرب میں زندگی گذارہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں، کیوں کہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں جو تشدد آج دین محمد، زاہد بلوچ، اور دیگر بلوچ اسیران کے حصے میں آئی، کہیں انکو بھی اس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل نہ کیا جائے۔
درد کیا ہوتا ہے یہ مہلب و سمی سے پوچھیئے، جنہوں نے نو سالوں سے باپ کا پیار نہیں دیکھا، جنہوں نے کم سنی میں دکھ و درد جھیلے، خوشی جن سے روٹھی ہو، انکی زندگی کس کرب سے گذرتی ہے۔ اس کا حال بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے معاشرے میں بسنے والے لوگ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ لڑکی گھر کی زینت سمجھی جاتی ہے، لیکن مہلب، سمی، سیما ، حمیدہ ، خدیجہ اور دیگر مائیں بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیئے میڈیا کے سامنے اپنا حلق خشک کئے ہوئے ہیں، لیکن نہ میڈیا میں انکی آواز سنی جاتی ہیں اور نہ ہی ہمارے بے حس معاشرے کا ضمیر اٹھتا ہے۔
جو اپنے مفاد کے لئے عزت و غیرت کے بڑے دعویدار ہیں بے حس معاشرے کے مردہ ضمیر انسان اس ڈر میں مبتلاء ہیں کہ کہیں مہلب کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ہم بھی اس درد میں مبتلا نہ ہوجائیں، میرے معاشرے میں حقوق، بھائی چارگی انسانیت سچائی، پر بڑے بڑے لیکچرز دینے والے مولوی حضرات بھی اس ظلم پر خاموش ہیں، دشمن تو ہمارا ویسے ہی وحشی و غیر مہذب ہے لیکن ہمیں اب ہوش کے ناخن لینا چاہیئے اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے درد میں شریک ہونا چاہیئے کیونکہ یہ درد مہلب و سمی کا نہیں بلکہ ہر بلوچ فرزند کا ہے۔