قومی آزادی کی تحریک میں ماس پارٹی کی افادیت و اہمیت – سنگت برھان زئی

636

“بلوچ قومی سوال “
قومی آزادی کی تحریک میں ماس پارٹی کی افادیت و اہمیت

سنگت برھان زئی

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

گذشتہ سطور میں ہم نے قومی سوال کے حوالے سے مختصراً بلوچ معاشرہ مزاج اور قوم کے مختلف طبقات اور پرتوں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ زیر نظر سطور میں قومی آزادی کی تحریک میں ماس پارٹی کی اہمیت پر مختصراً روشنی ڈالیں گے۔ اس لئے لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں بلکہ براہ راست اپنے مقصد کی طرف آتے ہیں۔

ماس پارٹی :
ماس بہ معنی” عوام ” کے ہیں ماس پارٹی{ عوامی پارٹی } کے ہیں۔ بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک مظلوم و محکوم بلوچ قوم کی آزادی کی ایک فکری تحریک ہے۔ ظاہر ہے اس تحریک کے رہنماؤں اور کارکنوں کو فکر و فلسفے سے ضروری ادراک و شعور ہے۔ اس وقت بلوچ قومی تحریک سے وابسطہ بہت سی پارٹیاں اور تنظیمیں ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پارٹیوں اور تنظیموں کے اپنے اپنے رہنما بھی موجود ہیں اور ان پارٹیوں کے اپنے آئین و منشور بھی ہیں۔ لیکن تلخ حقائق یہ ہیں کہ ان پارٹیوں میں سے کوئی بھی صحیح معنوں میں اور مکمل طور پر ماس پارٹی نہیں ہیں۔ گو کہ ان کے اپنے دائرے اور حلقے ضرور ہیں اور ہر پارٹی کے رہنما و کارکن خود کو حقیقی پارٹی کہتے ہیں۔ لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ تو پھر حقیقت کیا ہے؟ سچائی یہ ہے کہ اگر ہم سائنسی طور پر اس سب کا تجزیہ کریں، تو پھر یہ سب کے سب گروپ ضرور کہے جاسکتے ہیں لیکن ماس پارٹی نہیں۔ کیونکہ ماس پارٹی اکیڈمک ہوتا ہے اور اس کے بینر تلے ذیلی ادارے یا آرگنائزیشنز ہوتے ہیں۔ جو اپنے تنظیمی ڈھانچے کی موجودگی میں اپنے بنیادی مقاصد کو واضح پروگرام کے ذریعے عوام الناس میں روشناس کرواتے ہیں۔ یہی ذیلی تنظیمیں ماس پارٹی کو بنیادیں فراہم کرتے ہیں کارکن و کیڈر پیدا کرتے ہیں لہٰذا تمام تر جزیات کے ساتھ اس بات کو مد نظر رکھنا عمرانیاتی مضمرات کو ایک جدید ماس پارٹی ہی پوری کرسکتی ہے۔

دنیا کے چند جدید ماس پارٹیز کا مختصر جائزہ :
ہم اس وقت ماضی میں نہیں جائیں گے بلکہ چند اہم ممالک کے ماس پارٹیز کا ذکر کرینگے اور اس کے بعد بحث کو سمیٹنے کی کوشش کرینگے ۔ لہذا ذیل میں ان ہی ملکوں کی ماس پارٹیز کا حوالہ دینگے جو مشہور ومعروف پارٹیاں ہیں۔

یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ.:

ریاست ہائے متحدہ امریکہ گوکہ سرمایہ دارانہ سامراجی ملک ہے، لیکن USA میں وہ جدید ماس پارٹیاں موجود ہیں جن کی جڑیں امریکی عوام میں ہیں، یہ دونوں پارٹیاں 1) ری پبلیکن پارٹی اور 2)ڈیموکریٹک پارٹی کہلاتی ہیں۔ ان کا مرکزی سیکٹریٹ واشنگٹن ڈی۔ سی میں ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کی مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کا چناؤ ہر دو سال بعد مرکزی کنویشن یا کونسل سیشن کے ذریعے عمل میں آتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے ذیلی ادارے یا ونگز بھی موجود ہیں۔ ان جماعتوں کے مالیاتی ادارے، سوشل ویلفیئر ، ہیلتھ سروسز، طلبا، وکلا، ادیب اور دانشوروں کے مِظبوط ادارے بھی ہیں۔ جو آپس میں باہم مربوط ہیں۔ امریکی ماسسز میں ان دونوں جماعتوں کے روٹس اتنے زبردست ہیں کہ ہر چار سال بعد امریکی صدارتی انتخابات ان دونوں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے۔ امریکہ کی تقریباً تمام ریاستوں میں ان دونوں کے فعال باڈیز ہیں۔

متحدہ برطانیہ عظمیٰ :

متحدہ برطانیہ عظمیٰ میں بھی دو ماس پارٹیاں ہیں، برطانیہ بھی جدید سرمایہ دارانہ ملک ہے اور ہر دو پارٹیاں بھی سرمایہ داروں کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن لیبر پارٹی سوشلزم کا دعویدار ہے اور خود کو ورکنگ کلاس کی جماعت گردانتاہے۔ دوسری جماعت کنزرویٹو پارٹی ہے جو روایات پسند بنیاد پرستی کا کھلا اعلان کرتی ہے۔ لیکن ان دونوں جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ سائنسی بنیادوں پر استوار ہے ان دونوں جماعتوں کے بھی تمام ذیلی ونگز موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں برطانوی عوام میں بہت گہرے ہیں۔

بھارت :

ہندوستان میں مختلف قومیں آباد ہیں یہ ایک کثیرالقومی اور بہت بڑی افرادی قوت والا ملک ہے۔ ہندوستان میں بے شمار پارٹیاں ہیں ۔ علاقائی بھی لسانی بھی اور مذہبی جماعتیں بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقی معنوں میں ہندوستان کی ماس پارٹیز بہت کم ہیں ان میں سرفہرست 1)انڈین نیشنل کانگریس2) بھارتیہ جنتا پارٹی 3).کمیونسٹ جماعتیں 4) کمیونسٹ پارٹی انڈیا 5) کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسٹ جو کہ صحیح معنوں میں ماس پارٹیاں ہیں گو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک انتہا پسند جماعت ہے لیکن ان جماعتوں میں شامل ہے جو عوام میں جڑیں رکھتے ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس بہت قدیم جماعت ہے۔ اس پارٹی کو ہندوستان کی آزادی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ دوسری تمام جماعتوں سے بڑھکر اسکے ذیلی ونگز بہت اہم ہیں۔ طلبا، مزدور، کسانوں، خواتین ،دانشوروں اور ادیبوں میں اس کے ونگز موجود ہیں۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹیوں کے بھی ذیلی ادارے بہت توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ اسی لیئے صحیح معنوں میں یہ جماعتیں ہندوستان کی ماس پارٹیاں کہلاتے ہیں۔

بلوچ قومی تحریک میں ماس پارٹی :

مندجہ بالا تین اہم ملکوں کی ماس پاٹیز کا ذکر مختصراً اس لئے کیا گیا کہ کیونکہ یہ دور حاضر کی پارٹیاں ہیں اگر ہم ماضی میں جھانکتے تو بحث بہت طویل ہوتا ہم یہاں مختصر حوالے دے رہے ہیں کیونکہ ہمارا نقطہ نظر بلوچ قومی آزادی کی تحریک ہے۔ اس لئے اب بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ماس پارٹی پر مختصر جائزہ لیکر بحث کو ختم کرتے ہیں ۔ چونکہ ہم نے شروع کے سطور میں واضح کیا تھا کہ آزادی پسند پارٹیاں گروپ ضرور ہیں جو اپنےحلقے رکھتے ہیں مگر بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک میں ماس پارٹی کا واضع فقدان نظر آرہا ہے۔

بلوچ ماس پارٹی کونسی پارٹی ہے؟ جواب کوئی نہیں۔ کیا ماس پارٹی کے بغیر تحریک کامیاب ہوسکتی ہے؟ جواب ماس پارٹی کے بغیر تحریک کا کوئی سمت واضح نہیں ہوگا، سب بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگ جائیں گے۔ اسی لیئے آیئے بلوچ قومی ماس پارٹی کی جانب بڑھتے ہیں۔

بلوچ ماس پارٹی ایک مرکز کے تحت منظم ہوگا۔ پارٹی ایک ہی ہوگی اور تمام بلوچ آزادی پسند رہنما لیڈرشپ کہلائینگے۔ چونکہ بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک سرفیس کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ بھی ہے لہٰذا گوریلا تنظیمیں اس ماس پارٹی کے ماتحت ہونگے اور دوسرے تمام ادارے بھی مرکز کے ماتحت ہونگے۔
1) ماس پارٹی :
اس پارٹی کا ایک نمایاں نام آئین و منشور ہوتا ہے اور ایک متفقہ لیڈرشپ ہوتی ہے۔ چونکہ بلوچ قوم حالت جنگ میں ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں پارٹی قیادت یا مرکزی کابینہ و مرکزی کمیٹی کے علاوہ ایک کور گروپ الگ سے ہوتا ہے، جو خفیہ ہوتا ہے۔ جس میں تمام ذیلی اداروں کے یا گوریلوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ انقلاب کے بعد اس کور گروپ کا خاتمہ ہوتا ہے کیونکہ پھر خفیہ ہونے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
2) پارٹی کے ذیلی ونگز :
اس میں ماس پارٹی کے ذیلی ادارے ہوتے ہیں اور دوران جدوجہد ماس پارٹی کے رہنما اہنے تمام ضروری ونگز تشکیل دیتے ہیں ۔جیسا کہ 1)مالیاتی ادارہ 2) طلبا تنظیم 3) محنت کشوں کی تنظیم 4) خواتین کے ادارے5) وکلا و قانون دانوں کی تنظیم 6)ادیب شاعروں و دانشوروں کی تنظیم کا قیام۔
3).گوریلا تنظیمیں :
واضح ہو گوریلا تنظیمیں الگ ہوکر اپنی تنظیمیں نہیں بناسکتی بلکہ گوریلا تنظیمیں ماس پارٹی کے ہی ذیلی ونگز ہوتے ہیں، یہ اور بات کہ ماس پارٹی کی لیڈر شپ حکمت عملی کے تحت گوریلا تنظیموں کے ڈھانچوں کو نہایت خفیہ رکھتی ہیں اور گوریلا تنظیموں میں شمولیت کے شرائط بہت کڑے آزمائشوں کے بعد ہی طے کرتے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ گوریلا تنظیمیں اور سرفیس گڈ مڈ نہیں ہوتے بلکہ سرفیس کو گوریلوں سے براہ راست کوئی واسطہ بھی نہیں ہوتا ۔سب اپنے دائرے اور ڈسپلین کے پابند ہوتےہیں۔
4).ذیلی ادارے :.
1)مالیاتی ادارہ : قومی آزادی کی پارٹی بلکہ ایک ریاست کی طرح ہوتی ہے۔ اسکی لیڈرشپ ایک حد تک ریاست کے ہی رہنما ہوتے ہیں مالیاتی ادارے بہت اہم ہوتے ہیں اور ان کا قیام آزادی کی جاری تحریک کے دوران ہوتا ہے۔ آزادی کے جدوجہد کے دوران وہاں اپنے بینک تشکیل دیئے جاتے ہیں، جو مختلف ناموں سے ملک کے اندر یا باہر کام کرتےہیں۔ اسکے علاوہ انشورنس کمپنیاں اور چھوٹے موٹے کاروباری ادارے۔
2)صحت کے ادارے :
مثلاً ہسپتال، کلینکز، ڈسپنسریاں اور موبائل کلینک، بلڈ بینک
3) تعلیم :
تعلیم ایک قوم کے لئے ازحد ضروری ہوتا ہے، تعلیمی اداروں کی تشکیل جاری قومی تحریک کے دوران ہی ہونے چاہیئے۔ جس میں اسکول، کمپیوٹر انسٹیوٹ اور دوسرے درس و تدریس کے ذرائع شامل ہیں۔

حرف آخر قصہ مختصر یہ کہ ان تمام چیزوں کو مہیا ایک بنیادی ماس پارٹی کے ذمے ہوتا ہے۔ جب آپ قبضہ گیر ریاست کے کسی چیز کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر آپ کا یہ فرض بنتا ہے قوم کی ساری ضرورتوں کا احاطہ کرکے اسے دوران جدوجہد ہی اپنے پاؤں پر کھڑا کریں تاکہ اسے کسی بھی مرحلے میں قبضہ گیر ریاست کے ادروں کی جانب دیکھنا نہ پڑے، اسی میں ہی کامیابی ہے ورنہ باقی ساری چیزیں نعرہ بازی کے زمرے میں آتے ہیں ایک سے زیادہ یعنی اتنے سارے آزادی پسند پارٹیوں کی موجودگی قوم اور کارکنوں کو تھکا کر مایوس کرنے کے علاوہ اور کیا معنی رکھتے ہیں۔