قبر – برزکوہی

476

قبر

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جوزف ایڈیسن کہتا ہے کہ “میں جب عظیم لوگوں کے مزاروں کو دیکھتا ہوں تو میرے اندر حسد کے تمام جذبات مرجاتے ہیں، جب میں حسین لوگوں کے قبروں کی کتبے پڑھتا ہوں، تو میری تمام نامناسب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں۔ جب میں قبروں پر والدین کو غم سے روتے دیکھتا ہوں، تو میرا دل فرط جذبات سے پگھل جاتا ہے اور جب میں والدین کی اپنی قبریں دیکھتا ہوں تو میں ان لوگوں کے دکھ اور انا کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہم نے بھی چلے جانا ہے۔ جب میں بادشاہوں کو ان کے سازشیوں کے ساتھ قبروں میں لیٹے دیکھتا ہوں، فریقین کو زمین بوس دیکھتا ہوں یا پھر ان مذہبی جنونیوں کی قبریں ملاحظہ کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے دنیا کو کار زار بنا دیا میں حیرانی اور غم کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں، مقابلوں، فرقوں اور انسانیت کے بارے میں سوچتا ہوں۔ جب میں کتبوں پر لکھی تاریخیں پڑھتا ہوں، جن میں کچھ کل فوت ہوئے تھے اور کچھ چھ سوسال پہلے تو میں اس عظیم دن کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جب ہم ہمعصر بن کر اکٹھے زندہ کیئے جائیں گے۔”

یہ تھے جوزف ایڈیسن کے الفاظ، ویسے تو لوگوں کا ہمیشہ حادثاتی طور پر آتے جاتے ہوئے قبروں سے آمنا سامنا ہوتا ہے لیکن مذہبی تہوار عید کے دن ضرور ہر کوئی اپنے رشتہ داروں، دوست و احباب یا والدین کے قبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ کوئی عید مبارکی و “حق بشخی” کیلئے قبرستان کا رخ کرتا ہے، تو کوئی پیاروں کی یاد میں روتا ہے، کوئی قبر سرہانے بیٹھ کر مغفرت کی دعائیں مانگتا ہے، تو کوئی قبر دیکھ کر موت سے خوف زدہ ہوکر توبہ تائب کرتا ہے۔ گو ہرکوئی کسی غیرمعمولی کیفیت میں گم نظرآتا ہے۔

مجھے بھی اتفاق سے ایک انجان و گمنام جگہ پر رنگ برنگی جھنڈوں کے سائے تلے، ایک قبرکا دیدار نصیب ہوا۔ یہ قبر کسی پیر، فقیر، سید و بزرگ کا قبر نہیں تھا بلکہ یہ ایک دیوانہ و مستانہ مرید کا قبر تھا۔ جو عشقِ حانل میں گرفتار تھا اور چاکر کے جبر سے گبھرا کر مکہ فرار ہونے کے بجائے اس مرید نے حانل کے بغل میں ابدی نیند سونے کو ترجیح دی۔

میں نے قبر پر کیوں حاضری دی؟ میں نے معافی مانگتا یا اظہار شرمندگی کرتا یا پھر رسم و رواج کے تحت عید کی مبارک بادیاں اسے دیتا؟ یا پھر خدا سے اس کے حق میں دعا مانگتا؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتا، میں دعا تک نہیں مانگ سکتا کیونکہ یہ مستانہ مرید شہید ہے مردہ نہیں اور شہید تو زندہ ہوتے ہیں۔

میرے کچھ شکایات تھے، کچھ غصے تھے۔ میں اپنی بے حسی پر نالاں تھا اور احساس کمتری کا شکار تھا۔ میں بزدل تھا میں خود غرض تھا، میں جھوٹا تھا۔ میں منفی سوچوں سے مفلوج بندہ تھا۔ میں حرص و لالچ، نمود نمائش کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھا، میں مایوس اور الجھنوں کا شکار تھا۔

میں اپنے غصے اور مختلف کیفیات کو لیکر جب قبر پر حاضر ہوا تو سوال کیا کہ یار تم کس مٹی اور خمیر سے بنے ہو؟ کہاں سے آئے، کیوں آئے اور پھر کیوں واپس لوٹے؟ مجھے آپ پر غصہ ہے، مجھے آپ پر انتہائی اور بہت غصہ آتا ہے۔ اپنے آپ کو دیکھ کر مجھے آپ سے حسد اور بغض ہوتا ہے، آپ کی سوچ سے، آپ کے کردار و عمل سے، آخر آپ کیا چیز تھے؟ آپ انسان تھے بھی کہ نہیں؟ یا پھر کچھ غیر مرئی تھے؟

تمھاری وسیع سوچ، ادراک، کردار، علم، عمل، شعور، ضمیر، بےغرضی، احساس اور بہادری کے پیچھے کون کون سے محرکات، عوامل، جذبات اور واقعات کارفرما تھے؟ جنہوں نے تمہارے کردار کی تشکیل کو پایہ تکیمیل تک پہچا دیا؟ کیا ان محرکات وعوامل، جذبات اور واقعات سے ہم نہیں گذرچکے ہیں اور نہیں گزرہے ہیں؟ تو پھر ہمارا کیوں ایک بال تک بیکا نہیں ہوتا ہے؟ آپ نے تو اپنی پوری جان قربان کردی، کیا فرق ہے، کیا مسئلہ ہے؟

آپ تو جیسے گونگے سے تھے، آپ کچھ نہیں بولتے ہوئے بھی بس اپنی خاموشی میں سب کچھ بول دیتے۔ آپ اپنی چیختی خاموشگی میں ماضی حال اور مستقبل سب کا پتہ دے دیتے۔ ہم سب کچھ بولتے ہیں، زبان تلوار کی تیز دھار کی طرح چلتی رہتی ہے۔ ہمارے بھڑک بازیوں کی تو روک نہیں اور اپنی مخلصی، شعورپن، علمیت و عملیت، انقلابی پن، قربانیوں اور بہادری ثابت کرنے کی ایکٹنگ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے ادکاروں کو شرما دے۔ پھر آخر کیوں ہم آپکے کردار، سوچ اور عمل کی سطح کو لیکر آپ جیسے نہیں بن سکتے؟ یہ احساس کی کمی ہے یا علم و شعور کا قحط؟ زوایہ نظر میں فرق ہے یا پھر ہمارے تمام دعویں، بھڑک بازیاں دکھاوے صرف اور صرف مصنویت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں؟

کیا پتہ انسان کو کب کونسا واقعہ، کونسی چیز اور کونسا خیال تبدیل کردے یا سب اثر انگیزیوں کے باوجود تبدیلی امکانات تک نا چھوڑے، لیکن اگر انسان خود تبدیلی کا عہد و ارداہ کرے، تو پھر وہ اپنی سوچ، اپنا زوایہ نظر کو ضرور تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ فیصلہ انسان کے خود کے اہنی ہاتھوں میں ہے۔ سوچنا چاہیئے غور کرنا چاہیئے۔

جب ہم قبروں پر حاضر ہوں تو یہ ضرور سوچ لیں کہ آج میں یہاں کھڑے ہوکر دعا کے ساتھ اپنے ذہن میں قبر میں لیٹے ہوئے مدمقابل انسان کے بارے میں، اسکی زندگی میں کردار، سوچ اعمال اور فیصلوں کے بارے میں کیا سوچتا ہوں؟ کیا نتیجہ اخذ کرتا ہوں؟ تو پھر یہ بھی ضرور سوچنا کہ کل کوئی آکر میری قبر پر کیا سوچے گا اور کیا کہے گا؟

قبر میں لیٹے ہوئے انسان کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں کہ زندگی کے بعد آپ کے بارے میں لوگوں کی جو آراء اور فیصلہ ہونگے، وہی اصل تاریخ ہوگا۔

آج ذندگی میں انسان کو وہ سب اسباب و علت میسر ہیں، جن سے زندگی کے ڈگر و مقام کا تعین کیا جاسکے۔ یہ فیصلہ محض ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے کہ ہم اپنے لیئے کس مقام کا تعین کرتے ہیں۔ ہمارے خود کے سوا نا کوئی اور یہ فیصلہ کرتا ہے اور نا ہی یہ کسی اور کے ہاتھوں میں ہے کہ ہمارے کل اور آج کا کردار و مقام کیا ہو۔ یہ سبق، یہ سوچ، ذہنی تبدیلی کی یہ پہلی کڑی مجھے آپکے قبر کے دیدار سے ملا۔