غرور سے نا واقف جہدِ مسلسل کی علامت – عبدالواجد بلوچ

451

غرور سے نا واقف جہدِ مسلسل کی علامت
“نواب خیر بخش مری”

تحریر : عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

29 فروری 1928 کا دن مبارک دن ہوگا کیونکہ اس دن دنیا کے افق پر ایک ایسے شخصیت کا جنم ہوا، جو بعد میں جدید بلوچ قومی تحریک کے بانی بنے. صوفی منش انسان غرور تکبر گھمنڈ سے ناواقف، گو کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ جب وہ اپنے قبیلے کے سردار بنے، تو اپنے قبیلے کے لوگوں سے مصافحہ کرنے کے بعد وہ اپنے ہاتھ پٹرول سے دھوتے تھے لیکن اس جیسی جھوٹی قیاس آرائیاں اس وقت دم توڑ دیتی ہیں، جب دنیا نواب خیر بخش مری کو صوفی منش انسان کی طرح انتہائی درویشانہ انداز میں پاتا ہے. وہ انسانی برابری کے علمبردار تھے، حقیقتاً وہ ایک انقلابی صوفی تھے. لیکن ان کے اندر ایک ادا تھی، وہ کٹر قوم پرست تھے۔ وہ جتنی محبت اپنی قوم اور اپنے سرزمین سے کرتے تھے اسی انداز میں اتنی ہی نفرت اپنے زمین پر قبضہ کرنے والی قوتوں سے کرتے تھے۔ محبت و نفرت کے اس پیراہن میں جب ہم ان کے کردار پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں وہ اپنے موقف پر ڈ ٹے رہنے والا ایک سخت گیر سپہ سالار دکھائی دیتے ہیں، جو ہمہ وقت متحرک رہتا ہو. وہ علامت جو نا کبھی جھکے، نا رُکے، نا ٹوٹے اور نا کبھی منزل سے پہلے ڈیرے ڈالے. ایک ہی جسم میں وہ کئیوں روپ دھار چکے تھے، وہ متحرک گوریلا بھی تھے، وہ نڈر لیڈر بھی تھے، وہ انتہائی فلسفیانہ شخصیت کے مالک بھی تھے کیونکہ انہیں سمجھنا چند لوگو کے لئے سہل نا تھا۔

کچھ لوگ کہتے تھے کہ اگر خیر بخش کو سمجھنا ہے، تو سب سے پہلے فلسفے پر عبور حاصل کرو لیکن نہیں کیونکہ زمانہِ طالب علمی میں راقم کو یہ شرف حاصل تھا کہ نواب صاحب کا دیدارِ گراں بہا نصیب ہو۔ اسی ضمن میں مَیں کہتاہوں کہ نہیں، نواب خیر بخش کو وہ لوگ نہیں سمجھتے تھے، جن کا اپنا کوئی وژن نہیں جنہیں جہدِ مسلسل سے کسی بھی طرح کا واسطہ نہیں پڑا۔ وہ لوگ جن کا کوئی حقیقی منزل نا ہو، ان کے لئے نواب خیر بخش ایک مشکل انسان ثابت ہوئے تھے۔ مگر جو عظیم منزل کے متلاشی ہیں، جن کا مضبوط وژن ہے، جو مظلومیت کی آہ کو محسوس کرتے ہیں، ان کے لئے نواب خیر بخش مری وہ فلسفہ تھے، جنہیں انقلابی فلسفہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا.لیکن ہاں وہ کندن تھے شاید زمانے کی تلخیوں اور اپنوں کی طویل بے رخی نے اس دورانیے میں انہیں کندن بنایا ہو کیونکہ ان کی کٹھن اور تکلیف دہ زندگی کے انگنت راز ایسے بھی ہیں جو کبھی ظاہر ہوئے ہی نہیں۔ انکی عظمت ایسی ہے کہ انہوں نے کبھی جتایا ہی نہیں، کبھی کوئی گلہ کیا ہی نہیں، کبھی اپنے ماتھے پر شکن تک آنے نہیں دی،عظمت کے عظیم پیکر تھے، انہوں نے خاموشی سے سب سہہ لیا اور خاموشی سے رخصت بھی ہوئے.

آپ سیاست و جدوجہد مسلسل کی ایک کھلی کتاب تھے، جن سے تمام مظلوم قومیتیں درونت لیا کرتے تھے. مارکسسٹ نظریے کے بنیاد پر وہ عظیم بلوچستان کے لئے مسلسل جدوجہد کی علامت ثابت ہوئیں. سن 1964،1968 کے ایوب کی آمریت کے سخت ایام ہوں، 1970،1973کے بھٹو کی جمہوری عامریت، اس دورانیے میں ٹھوس موقف اختیار کرکے اپنے قوم کو ایک مضبوط نظریہ دینے کا سہرا نواب خیر بخش مری کے سر جاتا ہے۔ ضیاء الحق کی شاطرانہ حکمت عملیوں سے بھی اس صوفی منش انسان کے لیئے نرم ہونے اور جھک جانے کا ذرا برابر عنصر نظر نہیں آیا بلکہ 1992 کو جب وہ تمام جلاوطن بلوچ قیادت کے ہمراہ افغانستان سے واپس آئے، تو پس پردہ ان کے ذہن میں وہی عظیم مقصد تھا، جس کی آبیاری انہوں نے طویل عرصے سے کی تھی۔ گو کہ اپنوں کا بک جانا، جھک جانا دھوکہ دینے سمیت بہت سے بے رخیانہ روش ساتھ تھے. کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ نواب صاحب جنگ چھوڑ کر نہیں آئے تھے بلکہ اس جنگ کو جیتنے کے لئے بروقت اور صحیح فیصلہ کر کے آئے تھے۔ جنگ کی تیاری اور بھی منظم طریقے سے کرنے کی حکمت عملی ساتھ لیکر آئے تھے۔ جس کا ثبوت افغانستان سے واپس آنے کے بعد اپنے جہدکار ساتھیوں کو اکھٹا کرکے “حق توار” نامی سرکل کی بنیاد ڈالنا ہے.

مشرف کے دور اقتدار میں ان پر بوگس کیسز بنانا انہیں پابندِ سلاسل کرکے نت نئے طریقوں سے انہیں جھکانا، خریدنا یا توڑنا سب حرکات آزمائے گئے لیکن کہتے ہیں کہ حالات کے سخت تھپیڑوں سے تربیت حاصل کرنے والے کندن یخ بستہ ہواؤں اور سخت آندھیوں میں بھی اپنے قدم نہیں روکتے۔ یہی وہ فلسفہ تھا، نواب صاحب کا کہ پیرانہ سالی میں وہ کراچی سکونت پذیر ہوئے لیکن قومی تحریک سے کسی طرح جدا نہیں ہوئے، کیونکہ قومی تحریک کی کامیابی اور آزادی کا حصول ان کے لیئے جسم کے اندر اس خون کی مانند تھی، جو ہمیشہ رگوں میں دوڑتی ہے.

آخری ایام میں بالاچ کی شہادت، اپنوں کی بے رخی، ضد، ہٹ دھرمی،عظیم تنظیم کا دو لخت ہونا وہ درد تھے جو ان کے لئے کینسر ثابت ہوگئے اور اسی لئے انہیں مزید اس خطہِ کائنات میں رہنے کی طاقت نہیں ہوئی اور وہ بلوچ و بلوچستان سے بچھڑ گئے لیکن جاتے جاتے ان کی رحلت سے بلوچ قومی تحریک کے لئے چند ایسے سوالات معرضِ وجود میں آگئے جو آج تک جواب طلب ہیں۔