عظمت کا نشان اماں گنجل – ڈاکٹر سگار بلوچ

442

عظمت کا نشان اماں گنجل

تحریر: ڈاکٹر سگار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ :اردو کالم

آج کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ قول ایک مفروضہ لگتا ہے کہ ” انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، دنیا میں اسے جینے اور اپنی ڈھنگ سے زندگی گذارنے کی آزادی ہے۔” ہم دیکھ رہے ہیں آج دنیا میں جتنی تذلیل ایک انسان کا دوسرے انسان کے ہاتھ ہورہا ہے، شاید ہی انسانی تاریخ میں ہمیں کہیں نظر آجائے۔ ظلم و بربریت کی اس شدت کا احساس جو میرے جیسے ہر اس غلام قوم کو ہے، جو قوم اور وطن کا درد اپنے سینے میں لیئے زندگی گذاررہاہے۔ یہ یقیناً اسی غلامی کا احساس ہے، جس کی وجہ سے یہ ذلت، یہ جبر، ظلم کی یہ داستانیں جو آئے روز میری قوم کے سر تھونپی جارہی ہیں، جس سے ہر لمحہ ایک نئی داستان رقم ہورہی ہے۔ قوم پہ ہونے والا یہ ظلم و بربریت شدت کے ساتھ محسوس میری رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے۔

لیکن وہ اقوام یا ادارے جو انسانیت کا راگ الااپتے نہیں تھکتے آج بلوچ قوم سمیت دنیا کے دیگر غلام اقوام کا یہ کرب سوال کررہی ہے کہ کہا ں ہیں وہ عالمی ادارے جو انسانیت کے نام پہ بنائے گئے ہیں؟ کہاں زمین بوس ہوگئے آپ لوگوں کی وہ مہذب باتیں، جو بلند محفلوں میں انسانیت کاقد بڑھانے کے لیئے کیا کرتے ہو، میں کیسے یقین کرلوں ان کتابوں پہ جو آپ لوگو ں نے انسانیت کو محفوظ بنانے اور اسے اس کا اصل مقام عطا کرنے کے لیئے رقم کرتے رہے ہو۔ ہاں شاید کل پھریہ واعظ تمہارے لبوں پہ ہوں، لیکن وہ عمل سے عاری، جیسے حال میں مَیں دیکھ رہا ہوں یا ماضی میں جو میں دیکھ چکا ہوں۔

عالمی ادارے اور دنیا کے نام نہاد مہذب اقوام کو چھوڑ کر اگر بلوچ قوم کی بات کی جائے، تو یہاں بھی صورتحال ان کے برعکس نہیں، جہاں روایتی طرز اندازاپنانا، قدیم اور بوسیدہ باتوں پر فخر کرنا، عورت کی تکریم اور بلند درجات کی بے عمل باتیں، آج کچھ عجیب سا لگتا ہے، جہاں عورت ماں، عورت ننگ و عزت اور ناموس کی علامت سمجھی جاتی ہو، وہی پہ عورت کو تماشا بنایا جاتا ہے۔ ان حالات کا سامناکرنے والا یقیناً دنیا اور سماج سے یہ کہتا رہیگا کہ الفاظ کے ذخیروں کا عمل کے بغیر سیاہ دھبوں سے زیادہ کوئی اہمیت۔

بلوچستان کے موجودہ حالات میں اپنے قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف اپنی بے بسی کامجھے بھر پور احساس ہے، جس کی وجہ سے میں خود کو بھی اس گناہ کا مرتکب سمجھتا ہوں۔ جہاں میں حوا کی بیٹیوں کا درد بانٹنے کے لیئے کچھ کرنے سے قاصر ہوں۔ آج میں اس شکست خوردہ کمزورمسافر کی طرح ہوں، جو راستے کی تکالیف سے زندگی کی بازی ہار رہا ہو، ہاں میں وہ مسافر ہوں جس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ زندگی کے حصول کے لیئے موت سے لڑ سکے، وہ زندگی جسے میں نے قوم کے نام کی تھی اپنے قوم کی بیٹیوں کی یہ حالت دیکھ کے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اس کا دم بھی گُھٹ رہا ہے۔ جہاں وہ ایک زندہ لاش کی مانند فقط ظلم و بربریت کا تماشا ریکھ رہا ہے۔

قوم کی عظیم بیٹی بی بی گنجل، مجھے اپنے اعمال سے ایسا لگتا ہے کہ میں کچھ کرنے اور کرانے کا اہل نہیں، میں آج ایک بھائی کی وہ ذمہ داریاں جو فطرت نے میرے سپرد کی ہیں، نبھانے میں ناکام ہو چکا ہوں۔ جہاں مصیبت میں اپنی بہن کا سہارا نہ بن سکا۔ آج میں اپنی روایتی تاریخی داستانوں پر عجیب سی شرمندگی محسوس کررہاہوں، جہاں ایک بلوچ اپنی غیرت پر جھکنے سے زیادہ سر کٹانے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہاں میں مانتا ہوں کہ دودا جیسے بہادر سپوت آج بھی زندہ ہیں اور اپنی بقاء اور قومی وجود کیلئے محاذ پر سینہ تان کر اپنی جان قربان کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا بلوچ اور بلوچیت کا ٹھیکہ صرف ان نوجوانوں پر لاگو ہوتا ہے جو تپتی دھوپ میں پیاس اور بھوک کی افلاس کو سہتے ہوئے کمزور صحت کے ساتھ سیاسی اور عسکری محاذ پہ دشمن کے خلاف نبرد آزما ہیں؟ قوم کے ان عظیم سپوتوں کے علاوہ کھبی کسی اورنے اپنی انسانیت اوربلوچیت کا فرض نبھایا ہے کہ آج آزادی کیلئے برسرپیکار جہدکاروں کی خواتین کو اپنی عزت سمجھیں تاکہ بلوچ ننگ و ناموس پرآنچ نہ آجائے؟ اس کا یک ہی جواب ہے کہ ہرگز نہیں آج ہمیں غیر وں سے زیادہ اپنوں نے وہ درد اور تکالیف دی ہیں، جسے رہتی دنیا تک بھلانا ممکن نہیں۔

میں واضح کرتاچلوں کہ آزادی کی جنگ میں دشمن کی صفوں میں شامل اپنے بھی دشمن ہی تصور ہوتے ہیں، ہم کسی سے گلہ نہیں کرسکتے، جس نے جو کرنا ہے بے شک کریں ۔ مگر ایک بات یاد رکھے کہ اپنی قوم کی خواتین کی آبرو کی تذلیل کو اپنی ماں، بیوی اور بیٹی کی تذلیل سمجھ لیں چونکہ کل یہی دشمن اسی عمل کو آپ کے خاندان پہ دہرا سکتی ہے۔ پھر آپ کے پاس اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیئے بھی کچھ نہیں بچے گا۔ لہٰذا آج بھی وقت ہے کہ اپنے اندر انسانیت کی تڑپ پیدا کریں، اپنی اس سوچ کو جگا دیں، جس سے انسانیت کا سرفخر سے بلند ہوتا ہے۔ نہیں تو کل کی ان تاریکیوں کا تم بھی سامنا کروگے۔

قلم کو سفر کرنا تھا، آج اس عظیم ہستی کی شان میں کچھ لکھنے کے لیئے اور نجانے رقم کیا ہوئیں۔ ہاں ۔۔۔ آج میں لاپتہ سفر جان کی بیوی مرحوم گنجل پر لکھنا چاہتا ہوں، گنجل کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی گنجل سے معافی مانگتا ہوں کہ میں کبھی آپ کے درد کو اپنا درد نہ سمجھ پایا، میں آپ سے سفر جان اور شبیر جان کے کردار پر بات نہ کرپایا، میں آپ کے ساتھ قومی آزادی کیلئے لازوال قربانیوں کے قصے بیان نہ کرسکا، جہاں بے شمار مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور ہزاروں اسی امید پہ کہ ایک دن ان کا پیارا، ان کا نورِ نظر زندہ سلامت واپس آجائیگا۔ بلوچ کی جدید تاریخ ایسے قصوں اور کہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ مگر آج آپ خود مثال بن چکی ہو،آج انہی قصوں میں آپ خود ایک افسانہ بن چکی ہو۔

میرں اماں گنجل، میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں پر ندامت کے باعث شاید میرا قلم میری رہنمائی نہیں کررہا ۔یہی جستجو مجھ سے بے شمار سوالات کا مطالبہ کررہی ہے اور ساتھ ہی میں لاجواب ہوں، میں مجرم ہوں، میں زندہ لاش ہوں۔

کاش میں آپ سے مل سکتا اور آپ سے بے شمار آپ جیسی بہنوں کا ذکر اور تکالیف کا اظہار کرپاتا، کاش آپ کے سامنے میں عقوبت خانوں میں بند زرینہ مری اور حنیفہ بگٹی کی تلخ حقیقت بیان کرتا جہاں وہ ہر روز موت کی دعا ئیں مانگا کرتے ہیں۔ اماں گنجل آپ کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے تھا، جہاں یقیناًان قصوں کا ذکر شبیر جان کرچکے ہونگے۔ مگر پھر بھی آج میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ کاش ۔۔۔کاش کہ ایک بار میں آپ کی زیارت کرپاتا۔ مگر وقت اور حالات کی بے رحمی نے ہمیں اتنی مہلت نہیں دی جہاں میں ایک عظیم ماں، ایک عظیم بہن کی عیادت اور تیمارداری کرتا۔

آج آپ کے جانے کے بعد سوبین جان، ظفر جان اور یوسف آبدیدہ ہیں وہ آہیں بھر رہے ہیں، ان کادل خون کے آنسو رو رہا ہے، وہ خود کو اپنے اس عمل کا مجرم گردان رہے ہیں کہ ہم اپنی بہن کے مقروض بن گئے اور یہ قرض رہتی دنیا تک ہم ادا نہیں کرپائیں گے۔ اماں گنجل یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ آزادی کی جنگ نام ہے دکھ، درد اور تکالیف کا۔ جو آج بلوچستان میں ہرگدان اورگلی کوچوں میں جاری و ساری ہے۔

اماں گنجل، سفر جان اور شبیر جان دشمن کے عقوبت خانوں میں آپ کو یقیناً یاد کر رہے ہونگے، مگر آپ لافانی دنیا کے سفر پہ رخصت ہوگئے۔ عظمت کا نشان” اماں گنجل” آج جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں، تو میں یہ سوچ کر شدید کرب میں مبتلا ہوگیا ہوں کہ نہ جانے آنے والے دنوں میں اور کتنے اماں گنجل یہ فانی دنیا چھوڑ کر چلے جائینگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اماں گنجل ! آپ کے دردکا دوا اس جہاں کے حکیم اور داناؤں کے پاس تو ممکن نہیں ہوا، جس کی وجہ سے آپ کی زندگی کی یہ کہانی ادھوری رہ گئی، پر جہاں اب آپ کا مسکن ہے، وہاں مجید جان ہونگے جو بے صبری سے آپ کا انتظار کررہا ہوگا۔ مجید جان کو ہمارا سلام دینا اور ان سے کہنا کہ تم سے ڈھکی چھپی کوئی بات نہیں، جہاں تو بھی دیکھ رہا ہے کہ تیرے قاتل آج پوری قوم کے قاتل بن چکے ہیں، آج بلوچ سماج میں تیرے قاتل مخبروں کے نام سے جانے جاتے ہیں اور یہ بھی بتا دیناکہ آپ کے گاوں کے اکثر لوگ ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جہاں وہ قوم کے درد کو محسوس کرنے سے کوسوں دور جا چکے ہیں اوراماں گنجل ان باتوں کا ذکر تم کرنا اور یہ بھی بتا دینا کہ تیرے جانے کے بعد بلوچ نوجوانوں نے بلوچستان کی آزادی کیلئے جنگ شروع کردی ہے۔

اماں گنجل ۔۔۔۔۔۔۔اے عظیم گنجل۔۔۔۔۔۔۔
سسکتی آہوں اور آنسووُں کے ساتھ الوداع

دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کو اس بابرکت مہینے کے طفیل، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین