شہید حمید بلوچ : بری بھی ہونگے، امر رہینگے! – چنگیز بلوچ

618

شہید حمید بلوچ: بری بھی ہونگے، امر رہینگے

تحریر: چنگیز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وقت کے جال میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں، جب انسان اپنے عمل سے ایک ایسی مادی قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے، جو وقت کے جال سے آزاد ہو کر لا زوال قدر کے طور پر انسانی معاشرے کے دل و دماغ پر ثبت ہو جاتا ہے اور وہ عمل جو وقت سے آگے بڑھ جاتا ہے اپنے تئیں اپنے مقصد اور نظریے کی وجہ سے ہی اس عظمت کو پہنچتا ہے۔ جیسے کے فینن کہتا ہے ” کہ جب میں ایک مخصوص رویے کا اظہار کروں جس میں میری ذات خود سے بالاتر ہو جائے، تبھی میں اس بات کی تصدیق کر رہا ہوتا ہوں کہ میرا عمل باقیوں کیلئے مفید ہے۔” یعنی ایک فرد اپنی ذات کے لیے چاہے جو بھی کرے، ذات کا بے پناہ حصول اسے انسانیت کے درجات سے گراتا جاتا ہے لیکن جب وہ ذات کی تکمیل کے لیئے اجتماعیت تک پہنچتا ہے، وہ خود کو عظمت کی راہ پر پاتا ہے۔ ایک اور عظیم جہدکار نے کہا تھا کہ ” انا کا شعوری تشکیل اس وقت ممکن ہے جب انسان خود کی نفی کرے۔ ” اور جب کوئی انسان ذات کی نفی کرتا ہے وہ ہیرو کہلاتا ہے، وہ دیوتا بن جاتا ہے، وہ ایک سوچ ، ایک کردار، ایک نظریہ بن جاتا ہے اور قوموں کے شعور اور ان کے کردار میں جینیاتی کوڈ کی طرح پیوست ہوجاتا ہے۔

بلوچ قوم کا علمبردار، بلوچ قوم کا پیشوا حمید بلوچ ہے، جس کی سوچ و قربانی آج بھی اجتماعی کاز کو ایندھن دیتی ہے، جس کی خالص روح، پاکیزہ جذبہ اور پختہ نظریہ بلوچ نوجوانوں کے جسموں سے نام نہاد طبقاتی تہذیب کے غلاظتوں سے صاف کرتی جاتی ہے۔ اس کا پر حوصلہ، جاذب و خوبصورت چہرہ آج بھی ہمارے حسن کے معیار طے کرتا ہے۔ اس کی عظیم قربانی، اس کی عظیم جدوجہد آج بھی ہمیں ہر سامراج کے خلاف سینہ سپر ہونے کی تلقین کرتی ہے۔ ہر ناانصافی، ہر نا برابری کے خلاف حرّیت کے شعلوں کو دوام بخشتی ہے۔

حمید آج بھی مشرق سے مغرب تک بلوچ کے ضمیر کو جھنجوڑتا پھرتا ہے، اس کے دل تک بے حسی کے چین کو آنے نہیں دیتا۔

حمید بلوچ تربت کے علاقے دشت کُنچتی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کیچ سے اور بعد میں کراچی میں زیر تعلیم رہے۔ وہ بی ایس او کراچی زون کے صدر تھے اور یہ بی ایس او کا دور ہے، بلوچ قومی جہد کا ہر دور بی ایس او کا دور ہے۔ حمید نے بی ایس او اور بی ایس او نے حمید کو عظمت کے معراج تک پہنچایا۔

حمید کے ولولہ انگیز جذبے میں صاف طور سے بی ایس او کا جذبہ ملتا ہے اور بی ایس او کی انقلاب پسندی میں پوری دنیا کی انقلابی شورشوں کا عکسِ نظریات بھی جُز سے کُل اور کُل سے جُز تک کے مسلسل سفر میں رہتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دھرتی کے ہر کونے میں انقلاب پسندوں نے قومی انقلاب کے نعرے تلے صدیوں کے پسے ہوئے عوام کو متحد و منظم کیا۔ دنیا ایک نئے آج میں داخل ہو چکی تھی، دنیا آگے کی جانب بڑھ رہی تھی اور بلوچ قوم کے رہبر بھی اس رفتار میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ کیوبا کے کاسترو سے ویتنام کے ہو چی منہ تک کی کامیابیاں اور لینن سے فینن تک کے نظریات سب ان کے پاس تھے اور یہی تجربات اور نظریات ان کے عمل کی بنیاد بنے۔

جتنا انقلابی آگے بڑھے ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا، جہاں سامراج کا جبر اور ظلم بڑھا وہیں انقلابیوں نے سب کچھ انسانیت اور وحشت کی اس جنگ میں جھونک دیا۔ خطے میں استعمار اور استحصال زدگان مسلسل ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے اور اسی جنگ کی ایک کڑی عمان کے دافر باغی لڑ رہے تھے، جس کو کچلنے کی خاطر استعمار نے اپنے پرانے آزمودہ اور کامیاب طریقوں میں سے ایک کو آزمایا کہ محکوم کو محکوم سے لڑوا کر ختم کردیا جائے کہ ایک تیر سے دو شکار ہو جائے۔ جہاں ایک جگہ انقلابی شورش کو سبوتاژ کیا جائے وہیں دوسری قوم کی ہمت بھی اس لڑائی میں جواب دے جائے اور استعمار دونوں محکوم اقوام کے استحصال اور لوٹ مار میں کامیاب ہو جائے۔ دافر باغیوں کو کچلنے کیلئے انہوں نے بلوچستان کے بے روزگار اور غریب نوجوانوں کو عمانی فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا۔

بلوچ جو خود سامراجی یلغار میں کچلے جارہے تھے، وہ دوسری اپنی جیسی محکوم قوم کے خلاف سامراجی یلغار میں زر خرید غلام کے طور پر لڑے یہ بلوچ با ضمیر نوجوانوں کو قطعی قبول نہ تھا۔ بی ایس او نے بھرتیوں کے اس عمل کے خلاف بھرپور ایجیٹیشن کی ، آگاہی مہم چلائی ، احتجاج کیئے، پر کون سنتا؟ پاکستان میں اس وقت فوجی ڈکٹیٹر ضیاء باطل کی بدترین آمریت کا دور تھا۔ پاکستان اکثر و بیشتر خوف سے سویا پڑا تھا۔ وہیں جب بی ایس او کی ہر ممکن کوشش کے باوجود ان کی آواز نہیں سنی گئی، تو انگریز سامراج کے خلاف لڑنے والے عظیم انقلابی بھگت سنگھ کی سی کیفیت نے بی ایس او کے کیڈرز کو آن گھیرا اور وہاں حمید نے بھگت کے الفاظ دہراے کہ بہروں کے کان کھولنے کیلیے الفاظ نہیں بلکہ دھماکے کی گونج چاہیئے ہوتی ہے۔ اور بس پھر حمید نے بھی بھگت کا راستہ اپنایا اور تربت گراونڈ جہاں بھرتیاں ہو رہیں تھیں، میں 9 دسمبر 1979 کو بے ضرر مگر زور دار آواز والا دھماکہ کیا گیا یعنی ہوائی فائرنگ کرکہ مجمع کو منتشر کیا گیا اور رضا کارانہ طور پر گرفتاری دے دی۔

حمید بلوچ نے اپنی آواز پہنچانی تھی، بلوچ عوام الناس تک یہی اس کا مقصد تھا اور جیسے بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بے ضرر حملہ تھا۔ جس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا البتہ اس کی گونج بہت بڑی تھی، یہ حمید کی ہکل تھی بی ایس او کی آواز لیئے جو بہت دور تلک بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچنے سمیت اسلام آباد سے سلطانِ عمان تک کے شاہی گدھ کو لرزا دیا اور اس نے اس نا انصافی کے خلاف ایک نئے ابھار کو جنم دیا۔ احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور ریاست کی طرف سے گرفتاریاں اور کریک ڈاون، حمید اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا۔ لیکن بھرتیوں کا سلسلہ رک گیا اور بلوچ دھرتی سے یہ عالمی پیغام پوری دنیا کو پہنچا کے سامراج کے خلاف بلوچ قوم ہر مورچے پر لڑے گی، چاہے وہ قومی ہو یا عالمی ، تنگ نظر قومی شاونزم کے قلعے مسمار کر دینے چاہئیں اور محنت کشوں اور مظلوم اقوام کو سامراج کے خلاف ایک ہو کر لڑنا ہو گا اور عالمی مظلوم جڑت میں ہی ایک سنہرے کل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

بی ایس او نے اپنے ترقی پسندانہ سوشلسٹ نظریات کو صرف لفاظیوں میں نہیں بلکہ عمل میں سچ ثابت کیا اور استعمار کو انہی نظریات سے بے پناہ خطرہ لاحق تھا۔ حمید پر عمانی کرنل کے قتل کا الزام دھرا گیا اور جب وہ زندہ پایا گیا تو ایک اور شخص کا جو بہت پہلے ہی مر چکا تھا اور پھر تیسرے کا، حمید کے مقدمے کی سماعت کرنے والے جج صاحبان جسٹس خدا بخش مری اور جسٹس امیر الملک مینگل نے حمید کو بے گناہ قرار دیا اور آمریت کے سر زوری کے خلاف احتجاجا٘ مستعفی ہو گئے۔ یہ واضح تھا کہ حمید نے کسی کا قتل نہیں کیا پر حمید جیسے آشفتہ سر انقلابی کو آزاد کیسے چھوڑا جا سکتا تھا۔ ضیاء جیسی خونخوار آمریت ایک نوجوان سے خوفزدہ تھی اور ڈر کر مجبور ہوئی کے آئین میں تبدیلیاں کرکے ملٹری کورٹ کے ذریعے حمید کو 11 جون 1981 کو پھانسی کا حکم دیا۔ لیکن آج تک کوئی پھانسی کا پھندا اتنا اونچا نہ باندھا جا سکا ہے، جو حمید جیسے اونچے سروں کی گردن تک پہنچ سکے۔

حمید کا ایمان اٹل تھا، اس کے مقاصد واضح تھے اور وہ اپنی عاقبت کے واسطے پر امید تھا۔ وہ کامیاب رہا لیکن آج بھی بلوچ قوم اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکی ہے اور جس کی بابت حمید ہی کہ الفاظ سب سے مناسب لگتے ہیں جو اس نے اپنی پھانسی سے ایک دن پہلے یعنی 10 جون 1981 کو مچھ جیل سے لکھے ” میں نے ایک بہت بڑے دشمن کو شکست دینے کی ٹھانی ہے، اور میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں۔ میرے بھائی ،دوست، عزیز اور میری قوم کے بچے میرے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ میں اپنے طالب علم ساتھیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم آزادی کی نعمت سے بہر آور ہونا چاہتے ہو تو قربانی سے پس و پیش نہ کرو، لیکن قربانی کے ساتھ آپس میں اتحاد و یکجہتی اور متحد عمل نہایت ضروری ہے۔ آپسی اختلاف سے صرف دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ یاد رکھو دشمن بہت مکّار ہے۔ لہذا بی ایس او اگر واقعی بلوچ قوم کو اس کی منزل تک پہنچانے میں رہنمائی کرے گی تو اس کے لیے آپس میں اتحاد ضروری ہے۔ اتحاد کے بغیر ہماری قوتیں منتشر ہو نگی اور ہماری منزل بہت دور۔”
یہی وہ حقیقی نتیجہ ہے جو آج بھی ہمیں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج بھی ہمارے قومی فرائض اور بی ایس او کی جہد حقیقی نظریات لیے بلوچ نوجوانوں کو حمید کا پیغام بہم پہنچا رہی ہے۔ پر ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے جو اسے قوم کیلئے نبھانی ہو گی۔

بقول فرانسس جینسن ” کسی قوم کا ہر شخص ان اعمال کا ذمہ دار ہے، جو اس قوم کے نام پر کیئے جا رہے ہیں” بلوچ کے سچے فرزند حمید نے اپنی ذمہ داری اٹھائی اور اپنے فرض کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے پیچھے نہ ہٹا حالانکہ جان بخشی ہو سکتی تھی لیکن اس نے اپنے مقصد کی خاطر فخر سے مرگ قبول کی اور آج بھی دنیا بھر میں ہر شخص کو اپنی قومی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہوگا، اگر وہ جابر قوم سے ہے تو اسے محکوم اقوام کے ساتھ اپنی قوم کے بر سر اقتدار طبقے کے خلاف لڑنا ہو گا اور اگر وہ محکوم قوم سے ہے تو اسے سب محکوموں کے ساتھ مل کر جبر کے ہر اظہار کے خلاف لڑ کر برابری و انصاف کی بنیاد پر سماج کی تشکیل نو کرنی ہو گی۔ یورپ کا نشاط ثانیہ ہو چکا اب دنیا کو ایک نئی زندگی درکار ہے جس کی بنیاد محنت کش اور مظلوم اقوام رکھیں گے۔

اتحاد جدوجہد آخری فتح تک