شہید حمید بلوچ ایک عظیم رہبر
دوستین مراد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ بلوچستان ایسے بہادر اور دلیر فرزندوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہمیشہ مشکل وقت اور نامسائد حالات میں وطن عزیز کو پیش آنے والے مشکلات میں کسی بھی کمی بیشی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی مزاحمت کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جب وطن مشکل میں ہو تو جنگ لازم ہوجاتی ہے اور جب جنگ لازم ہوجائے تو پھر مدمقابل آنے والوں کے لشکر و اسباب دیکھے نہیں جاتے بلکہ مدمقابل آکر دھرتی ماں سے محبت نبھائی جاتی ہے.
اسی فلسفے پر کاربند رہ کر ہر دور میں بلوچ فرزندوں نے بلوچستان پر آنے والے مشکلات میں محدود وسائل کے باوجود مزاحمت کا راستہ اپنا کر ایک سبق اور ایک راستہ دھرتی کے آنے والے وارثوں کے لیے چھوڑا ہے.
نجانے یہ بلوچ قوم کی بدقسمتی ہے یا خوش قسمتی کہ ہر دور میں اس کا واسطہ اس سے کئی گناہ طاقتور دشمنوں سے پڑا ہے، چاہے وہ حمل و جیئند کے مقابل اپنے وقت کے طاقتور پرتگیزی سمندری لٹیرے ہوں یا پھر شہید خان محراب خان کے مدمقابل انگریز سامراج جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا یا پھر پہلی جنگ عظیم میں نورا مینگل و خداداد مری کی جبری بھرتیوں کے خلاف تاریخی مزاحمت یا پاکستانی رجیم کے خلاف آغا عبدالکریم اور بابو نوروز کی جنگیں ہوں، بلوچ قوم کے فرزندوں نے ہمیشہ ہر حال میں یہ جاننے کے باوجود کہ انکے مدمقابل کی طاقت کئی گناہ زیادہ ہے، جس سے جیتنا آسان نہیں مگر مزاحمت کرکے آنے والوں کے لیے قوم کے لیے ایک زندہ تاریخ چھوڑا ہے کہ جس پر وہ فخر کرسکیں اور ایک راستہ دکھایا ہے جس پر وہ چل کر سامراجوں کو بتاسکیں کہ وہ ایک زندہ قوم کے فرزند ہیں اور اپنی دھرتی کی حفاظت کرنا جانتے ہیں.
جہاں بلوچ نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور یلغاروں کے خلاف مزاحمت کی ہے وہاں انہوں نے دنیا کی دوسرے مظلوم اقوام کا ساتھ دیکر انسان دوستی اور حریت پسندی کا ثبوت دیا ہے کہ جس طرح وہ اپنے لیے امن و آزادی چاہتے ہیں اسی طرح ہر مظلوم و محکوم قوم کے افراد کے لیے بھی چاہتے ہیں۔ اسی فلسفے پر کاربند رہ کر بلوچ دھرتی کے فرزندوں نے سینکڑوں سالوں سے اپنے ہمسایہ اقوام کی سرزمین اور رسوم و رواج میں عدم مداخلت کا رویہ جاری رکھا ہوا ہے اور بعض موقعوں پر اپنی ہمسایوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں محکوم و مظلوم اقوام کے خلاف ہونے والے جارحیت کے خلاف عملی طور پر اُٹھ کر اپنا فرض نبھایا ہے اسکی پہلی مثال خان محراب خان کی مزاحمت ہے جس میں انہوں نے اپنے وقت کے طاقتور سلطنت برطانیہ کے افواج کو اپنے دیرینہ اور بے ضرر ہمسایہ افغان قوم کے خلاف اپنی دھرتی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، جس کا اختتام انگریزوں کی قلات پر یلغار و قبضہ اور خان محراب خان سمیت سینکڑوں ہندو و مسلمان بلوچ حریت پسندوں کی شہادت پر منتج ہوا تھا اور دوسری بار جنگ عظیم اول میں ہندوستان کے مسلمان رہنما سلطنت برطانیہ کا ساتھ دیکر اپنی وفاداریاں ثابت کررہے تھے لیکن دوسری طرف بلوچ دھرتی پر کوہستان مری میں خداداد مری اور سراوان و جھالاوان میں نورا مینگل و سردار شہباز گرگناڑی نے یہ کہہ کر جبری بھرتیوں کے خلاف مزاحمت شروع کی تھی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے مسلمان بھائیوں کے خلاف ظالم برطانیہ کا ساتھ دینے کے لیے اپنے قوم کے فرزندوں کو کرایہ کے قاتل کے طور پر کبھی بھیج نہیں سکتے. اس تاریخی مزاحمت میں سینکڑوں بلوچ شہید اور گرفتار ہوئے تھے گرفتار قیدیوں کو جنگ عظیم کے خاتمے پر چھوڑا گیا تھا جبکہ نورا مینگل کا آج تک علم نہیں ہوسکا مگر بلوچوں کی لوک گیتوں اور داستانوں میں نورا مینگل ایک ہیرو کی طرح زندہ ہے اور بلوچ آج بھی اپنے بچوں کے نام نورا مینگل رکھ کر اس سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
.
جدید بلوچ مزاحمتی تاریخ میں ایک ایسا ہی ایک کردار حمید بلوچ کا ہے جو بلوچستان کے مردم خیز خطہ مکران میں 1949 میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم مکران سے حاصل کی اور زمانہ طالب علمی میں بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او سے منسلک ہوکر عملی سیاست کا آغاز کیا اور بلوچ طلباء کی نظریاتی تربیت کرتے رہے. اور بلوچ وطن کی آزادی اور نظریاتی انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے رہے. اسی دوران ستر کی دہائی میں سلطنت عمان میں ظفاری تحریک جو مظلوم و محکوموں کی تحریک تھی چل رہی تھی، جس کو کچلنا سلطنت عمان کے لیئے اپنے بل بوتے پر آسان نہیں تھا۔ اس لیئے اس نے پاکستان میں ضیاء رجیم سے افرادی قوت کی درخواست کی جس پر ضیاء رجیم نے انہیں مکران سمیت بلوچ بھر سے بھرتیوں کی اجازت دیدی. گوکہ بے روزگار افراد کے لیے یہ ایک روزگار کا سنہرا موقع تھا، جس میں پرکشش تنخواہیں اور دیگر مراعات تھے مگر وہ ان بھرتیوں کے مقاصد سے نابلد تھے کہ انہیں کس مقصد کے تحت بھرتی کیا جارہا ہے اور وہاں انہیں کس کے خلاف لڑایا جائیگا. دراصل یہ سلطنت عمان اور پاکستانی حکومت کا گٹھ جوڑ تھا کہ یہاں کے مظلوم و محکوموں کو وہاں کے محکوموں کے خلاف لڑایا جائے جس سے پاکستان کو زرمبادلہ آئیگا سلطنت اومان میں موجود تحریک کو کچلنے میں مدد ملیگا۔
انہی جبری بھرتیوں کے خلاف حمید بلوچ میدان میں اترے اور بھرتی مخالف تحریک شروع کی، جس میں انہوں نے مظاہروں کا انعقاد کیا اور گھر گھر جاکر لوگوں کو ان بھرتیوں کے مقاصد و تباہ کاریوں سے آگاہ کرتے رہے کہ یہ بھرتیاں تمہیں روزگار دینے کے لیئے نہیں بلکہ تمہیں تمہارے جیسے مظلوم محکوم و استحصال زدہ بھائیوں کے خلاف لڑانے کے لیئے ہے، جس میں تمہارا اور ان مظلوموں کا فائدہ کچھ بھی فائدہ نہیں ہے. دوسری طرف اومانی حکومت پاکستانی حکومت کی آشیرباد سے ان بھرتیوں کو جاری رکھا ہوا تھا بلآخر 3 اگست 1979 میں حمید بلوچ نے مزاحمت کا راستہ اپنا کر بھرتی کرنے والے اومانی افسروں پر پستول سے فائرنگ کی. اور فائرنگ کے بعد حمید بلوچ کو گرفتار کرلیا گیا اور انگریز سامراج کے بنائے ہوئے مچھ جیل میں ان پر مقدمہ چلا اور اقدام قتل کی جرم میں انہوں پھانسی کی سزا سنائی گئی جس کے خلاف انہوں نے کوئی اپیل نہیں کی اور نہ ہی معافی کا طلبگار ہوا بلکہ 11 جون 1981 کو بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی طرح پھانسی کے پھندے کو چوم کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
آج بلوچ قوم انہیں شہید حمید کے نام سے یاد کرتا ہے بلوچ شاعروں نے انہیں لوگ گیتوں میں زندہ رکھا ہوا ہے. بلوچ مائیں اپنے بچوں پر انکا نام رکھ کر انہیں حمید کے نام کی لوریاں سناتی ہیں. اور بلوچ نوجوان حمید کو اپنا نظریاتی استاد اور انکی فلسفہ زندگی و قربانی کو مشعل راہ بناکر اس پر کاربند رہ کر بلوچ وطن کی آزادی کے لیے ہر محاذ پر جدوجہد کررہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں جو آگے آکر ثمر آور ثابت ہونگے اور شہید حمید بلوچ کے دھرتی بلوچستان کو ظالم سرداروں اور سرکاروں سے آزادی ملیگی اور استحصال سے پاک بلوچستان وجود میں آئیگا۔
.
10 جون 1981 کو حمید بلوچ نے اپنا وصیت نامہ لکھا تھا جس میں انہوں نے بلوچستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں سے اتحاد و اتفاق رکھنے کی درخواست کی تھی شہید حمید بلوچ کا وصیت نامہ انہیں کے الفاظ میں اس طرح ہے
او بلوچ
تئی زہیروارتگ، زندگیں مرگاں کن اَنت
آمرد کے حون ء بیر کن اَنت
ماہیں جناں انگار کن اَنت
ملک ءُ ڈگار ءَ چون کن اَنت
مجھے اس بات کا کم یقین ہے کہ میرا یہ وصیت نامہ میرے عظیم بلوچستان کے عظیم فرزندوں تک پہنچ بھی جائے گا یا نہیں، اور جس وقت میں یہ لکھ رہا ہوں میرے ارد گرد مسلح افراد ہیں۔ جو میرے ایکشن کو بغور دیکھ رہے ہیں ۔ اس وقت مجھے مزید آٹھ گھنٹہ زندہ رہنے کی مہلت ہے۔ اور آٹھ گھنٹہ بعد میں تختہ دار پر ہونگا لیکن مجھے اس بات پر ذرا بھی نہ پشیمانی ہے اور نہ ہی اس بات کا خیال کہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیے تھا کیونکہ اگر زندگی بلا مقصد ہو اور غلامی میں بسر کی جائے اور وہ زندگی لعنت ہے۔بلوچی میں مقولہ ہے کہ
مردے پہ نانءَ مرایت
مردے پہ نامءَ مرایت
بلوچستان کے لیے صرف میں نے قربانی نہیں دی ہے۔ سینکڑوں بلوچ وطن کی راہ میں اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ خود میرے خاندان میں میں دوسرا فرد ہوں جو پھانسی کے اس زنجیر کو چھو کر گلے میں ڈالوں گا۔اور اپنا خون اس عظیم مقصد کے لیے دوں گا جسکی تکمیل میرا ایمان ہے بلوچ بچے کریں گے۔میرے خاندان میں میرے دادا کو انگریزوں نے پھانسی دی تھی یہ واقعہ 1902ء میں ہوا۔
میرا ہمیشہ میرے دوستوں سے یہ کہنا رہا ہے کہ آزادی جیسی انمول دولت بغیر خون کی قربانی سے نہیں مل سکتی ۔ کم از کم میں نے کسی جگہ تاریخ میں یہ نہیں پڑھا کہ قوموں کو آزادی بغیر قربانی کے ملا ہو۔اور آزادی کی راہ دشوار ضرور ہے مگر منزل شاید اتنا نزدیک ہے میں تو اس کا خیال کرکے انتہا کی مسرت محسوس کرتا ہوں ، گوکہ شاید ہماری آزادی شاید میری بیٹی بانڑی جو اس وقت تین سال کی ہے اسکے زمانے میں بھی ہمیں نصیب نہ ہو۔ لیکن اس کے بچے یا میرے بھائی بیبرگ کے بچے ضرور اس منزل تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت میری روح کو تسکیں پہنچ جائے گا۔ یقینا ًمیری قربانی ان عظیم قربانیوں سے کم ہوگی جو بلوچ بچے اور بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے دے گے مگر کم ازکم میں نے اپنی جان دے کر صرف اپنے ساتھیوں تک یہ بات پہنچادی ہے کہ
تو پہ سرانی گڈگ ءَ زندءِ حیالانءَ کُشے
پہ سندگ ءَ داشت کنے پلءَ چہ بوتالانیءَ
مجھے یقین ہے کے میرے خاندان کے تمام افراد میری موت کو خندہ پیشانی سے قبول کریں گے بلکہ اس پر فخر محسوس کریں گے مگر میری ماں زندہ ہوتی جس نے مجھے بچپن میں یہ لوری یقینا دی ہوگی کہ
اگاں پہ مردی مرئے۔
گڑا کایاں تئی قبرءِ سرءَ
پیراں ، دو بر ورنا باں
تئی مٹ ءَ دوبر پیدا کناں
نوکیں سرء گواپے کناں
تئی موتک ءِ بدل ہالو کناں
مجھے یقین ہے کہ میری بہنیں ، عزیز یقینا! مرے مرنے پر نوحہ نہیں کریں گے میں بڑی امی سے کہوں گا کہ وہ لوریاں یاد رکھے جو اس نے ہم سب کو دیئے تھے کہ
بچ منی پلگدیں ورنابیت
زیریت ہر ششیں ہتھیاراں
بدواہاں شکون دیم کنت
جوریں دشمناں پرام ایت
میں نے ایک بہت بڑے کو شکست کی ٹھانی ہے میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں میرے بھائی ، دوست عزیز اور میرے قوم کے بچے میری مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ میں اپنے طالبعلم ساتھیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم آزادی کی نعمت سے بار آور ہونا چاہتے ہو تو قربانی دینے سے پس پیش نہ کرو لیکن قربانی کے ساتھ آپس میں اتحاد و یکجہتی اور متحدہ عمل نہایت ضروری ہے۔ آپس کے اختلافات سے صرف دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ یاد رکھو دشمن بڑا مکار ہے۔ لہٰذا اگر بی ایس او واقعی بلوچ قوم کی اس کے منزل تک پہنچنے میں رہنمائی کرے گی تو ان کے لیے آپ میں اتحاد ضروری ہے اتحاد کے بغیر ہم منتشر ہونگے اور ہماری منزل مزیددور ہوگی۔
بلوچستان کی سر زمین کو سبزہ زار بنانے کیلئے خون کے آبیاری کی ضرورت ہے اور خون ہی سے “سرمگیں بولان” سر سبز ہوتا ہے۔
کپ ایت بیر ءُ
سرپ انت دنباں
سبز ایت سر مگیں بولان
بلوچستان کے بلند و بالا پہاڑ اور حسین میدان اس بلوچ کے منتظر ہے جسے وہ اپنا گھر اپنا قلعہ کہتا ہے۔
کوہ انت بلوچانی کلات
انباراِش بے راہیں گر اَنت
آپ اِش بہوکیں چمگ اَنت
بور اِش سپیت ایں چبو ااَنت
بچ اِش گچین ایں گونڈل اَنت
آریپ اِش مزن ٹاپیں لڑاَنت
حمید بلوچ
پھانسی گھاٹ سینٹرل جیل مچھ
مورخہ 10 جون 1981ء وقت 4 بجے شام