شہید استاد صباء دشتیاری مزاحمت کی علامت – حکیم واڈیلہ 

501

شہید استاد صباء دشتیاری مزاحمت کی علامت

تحریر: حکیم واڈیلہ 

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

کوئی بھی عمل اگر مکمل غور و تحقیق کے بعد شروع کی جائے تو وہ عمل کبھی بھی بے معنی نہیں ہوسکتا، پھر چاہے کتنے ہی دشوار اور کٹھن راستوں سے گذرنا ہی کیوں نہ پڑ جائے، وہ شروع کردہ عمل کسی نہ کسی صورت اپنے منزل کو حاصل کرہی لیتی ہے۔ لیکن اگر بغیر تحقیق کے کسی بھی عمل کی شروعات کی جائے یا اس عمل کا حصہ بنا جائے تو وہ عمل یا اس عمل سے جڑت محض جذباتی پن کے حد تک ہی ہوتی ہے، جس کا انجام تھک جانے، مایوس ہونے یا پھر اپنے منزل سے روگردانی کی شکل میں نکلتا ہے۔ آج کے دور میں اکثر و بیشتر لوگ کسی بھی کام سے قربت صرف اس حد تک ہی رکھتے ہیں کہ شاہد یہ عمل اس کی ذات کی خاطر منافع بخش ہو۔ لیکن جو لوگ ذاتی خواہشات اور آسودگی کو پسِ پشت رکھ کر اجتماعی مفادات کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں، وہی لوگ سرخ رو ہوپاتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ بن پاتے ہیں۔ ان ناموں میں سے ایک نام میرے عظیم اُستاد، دانشور، ادیب ، سیاسی رہنماء اور مزاحمت کار شہید صباء دشتیاری کا بھی ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کو اپنے عظیم مقصد کی خاطر قربان کردیا۔

شہید صباء دشتیاری کے بارے میں لکھتے وقت ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ اُستاد کے بارے میں لکھ تو رہا ہوں لیکن کیا واقعی اس لائق ہوچکا ہوں کہ استاد کی زندگی، انکی جدوجہد، انکے غم، انکی خوشی، انکی کہی ہوئی باتوں اور تعلیم کو ایمانداری سے قلم بند کرسکوں گا یا نہیں؟ بہر کیف گذشتہ سات سالوں سے ہمیشہ کوشش کررہا ہوں کہ اپنے احساسات اور استاد کے ساتھ گذرے لمحات کو ایک تحریری شکل دوں لیکن پھر اس سوچ کے ساتھ کے استاد کی عظمت میں لفظوں کے ساتھ بے ایمانی نا ہوجائے، تحریریں ادھوری اور بات نامکمل رہ جاتی ہیں لیکن آج ہمت کرکے استاد کی یادوں کو بیان کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کررہا ہوں۔ اگر کہیں کوئی کوتاہی یا کمی ہوگی تو یقینًا استاد اپنے اس نالائق شاگرد کو ہمیشہ کی طرح یہ کہہ کر معاف کر دینگے “ہاں اڑے آڈالایں لیڈر چون اِنت شمے سیاست”۔

صباء دشتیاری (غلام حسین بلوچ) ایک ملنگ صفت شخص، جو کہ علم کا دریا سیاست، ادب اور مذہب پر مکمل عبور رکھنے والے ایک ایسے کردار کا نام ہے، جنہوں نے بلوچ قومی سیاست، بلوچ سماج اور بلوچ ادب کے میدان میں ایک نمایاں کردار ادا کرکے بلوچ نوجوانوں کو بلوچی زبان، سیاست اور بلوچی کلچر کی جانب راغب کرنے میں مرکز کا کردار ادا کیا۔ استاد صباء دشتیاری جو کہ ملیر میں قائم سید ظہور شاہ ریفرینس لائبریری کے بانی تھے، جہاں بلوچی زبان کا پہلا مکمل درس گاہ کا افتتاح کیا گیا تھا۔ جہاں سے تعلیم حاصل کرکے بہت سے موجودہ بلوچی زبان کے لکھاری، شاعر اورسیاسی جہدکار اپنے اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں اور جدوجہد کررہے ہیں۔ استاد صباء دشتیاری اپنے تنخواہ سے ہی لائبریری کے اکثر و بیشتر خرچے پورا کرتے اور اپنے اس چمن کی آبیاری کیا کرتے تھے۔

استاد صباء دشتیاری اکثر کراچی اور کوئٹہ میں تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے قیام پذیر تھے۔ کوئٹہ میں مقیم بلوچستان یونیورسٹی کے اسلامیات کے پروفیسر درحقیقت نوجوانوں کو یونیورسٹی میں ایک انقلاب کیلئے تیار کرنے میں مگن تھے، جسکا مقصد قبضہ گیریت سے نجات اور بلوچستان کی مکمل آزادی پر مشتمل تھی۔ اُنکا کام یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق اسلامیات کا درس دینا تھا لیکن کلاسز کے بعد یا دیگر فارغ اوقات میں وہ اپنے طالب علموں کو انقلاب اور آزادی کا درس بغیر کسی وظیفے کے دیا کرتے تھے۔ استاد ہمیشہ ہی اپنے طالب علموں کو سمجھاتے کے پاکستانی تاریخ اور یہ کتابیں جھوٹ پر مبنی ہیں، جو اس نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ طالب علموں کو دنیا کی تاریخ ، بلوچستان کی حقیقی تاریخ اور مسلح جدوجہد کے بارے میں پڑھنے کا کہتے اور وہ خود بھی انہیں لیکچرز دیتے نظر آتے۔ استاد اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں پاکستانی تعلیم در حقیقت تعلیم نہیں ہے، یہ تعلیم انسان کو ذہنی طور پر نامرد بنادیتی ہے، وہ مزید کہتے ہیں، اگر حقیقی طور پر اپنے تحریک کو سمجھنا اور جدوجہد کرنا چاہتے ہو تو فینن، ڈاکٹر عنایت اور سلیگ ہیریسن کا مطالعہ ضرور کیجیئے۔

استاد سے قربت کی ایک بڑی وجہ لائبریری کے متعدد چکر بھی تھے، جہاں دوستوں کی محفلیں سجا کرتی تھیں۔ علم، سیاست، فلسفہ، مذہب اور دنیا بھر میں جاری مظلوموں کی جدوجہد پر دوستوں کے بحث مباحثوں کو سُننا اور سمجھنے کی کوشش کرنا تھا۔ اسی دوران استاد سے بھی کافی قربت بڑھتی گئی، اگر آپ شہید صباء کے شاگرد اور لائبریری کے ممبر رہے ہونگے تو آپکو دو چیزیں یاد ہونگی، ایک اُستاد کا ہمیشہ ملاقاتوں میں پوچھنا “ہاں بچہ تو فیس داتنت“ یا پھر استاد کی ایک سالانہ خط آپکے ایڈریس پر موصول ہونا۔

استاد صباء کبھی بھی یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ میں علم کا پیکر ہوں یا عقل کل ہوں بلکہ وہ کسی بھی ماحول میں اِسطرح گھل مل جاتے کہ ان کی باتیں، انسان کو اپنی طرف اتنی شدت سے راغب کرتی کہ وہ باتیں ہمیشہ زندگی کا حصہ اور ایک نا قابلِ فراموش سبق بن جاتیں۔

کراچی میں جب لسانی بنیادوں پر بلوچ نسل کُشی شروع ہوئی، تو استاد اُس نسل کشی کیخلاف احتجاجوں میں صف اول میں موجود تھے اور ایک ادنیٰ سے جذباتی کارکن کی طرح نعرہ بازی کرتے۔ سب لوگوں کا حوصلہ بلند کرتے دکھائی دیتے۔ اسی طرح اگر کسی سیمینار یا جلسے میں شرکت کرتے تو وہ خود کو ایک کارکن کی حیثیت سے کارکنان کے درمیان ہی رکھتے۔ وہ کبھی بھی شوق لیڈری یا اپنی دانشوری کا احساس اپنے طالب علموں پر جتانے کے بجائے انہی کے جیسا کارکن بن کر ان سے قریب ہو کر انکی تربیت کرنے پر یقین رکھتے تھے۔

کراچی سمیت بلوچستان میں کہیں بھی استاد کی آمد انکی شاگردوں کیلئے کسی تہوار سے کم نہیں ہوتا تھا، کیونکہ استاد ہمیشہ ہی نئے آیڈیاز اور اپنے منفرد انداز بیان سے شاگردوں کو بلوچ جہد کیلئے تیار کرتے۔ استاد بیماری کے باوجود بھی بی این ایف، بی ایس او آزاد اور بی این ایم کے کسی بھی پروگرام میں شرکت کو یقینی بناتے تھے۔ اسی طرح بی این ایم یا بی این ایف کے ایک جلسہ میں اُستاد نے بی این ایم کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیوں ہم بی ایل ایف کی مسلح کاروائیاں سیاسی حوالے سے قبول کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں؟ استاد خود کو بی این ایم کا ممبر اور دوزواہ کہتے اور ہمیشہ اداروں کی مظبوطی کا درس دیتے تھے۔

استاد کی زندگی میں ان سے آخری چند ملاقاتوں میں سے ایک شہید محبوب واڈیلہ کی شہادت کے رات کو ہوئی تھی، اُستاد اس رات کو کافی افسردہ تھے۔ انہوں نے دوستوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ظالم ریاست اور اسکی فوج کو کیا معلوم ایک شاگرد کس طرح تیار کیا جاتا ہے۔ کس طرح ایک پودے کو درخت بنایا جاتا ہے، وہ بےدردی سے آکر میرے باغ کے بہترین درختوں کو کاٹ کر ہم سے جدا کررہاہے۔ جب شہید محبوب کے جسد خاکی کو قبرستان کی طرف لے جانے لگے تو ہزاروں کی بھیڑ میں اچانک سے نوجوانوں کے بیچ کھڑے پیراں سال استاد نے پاکستان مردہ باد کے نعرے بلند کرنا شروع کردیئے اور اس پورے راستے میں وہ نعروں کی گونج میں میت کو قبرستان تک رخصت کرواکر جب ایک جگہ تھک کر بیٹھ گئے، تو انہوں نے کہا تھا۔ “ایک دن آپ لوگ میری بھی میت اسی طرح لے جارہے ہوگے”۔

استاد اس سے قبل بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کرچکے تھے کہ ریاستی اداروں کے لوگ خاص طور پر انہوں نے رحمان ملک کا نام لیکر کہا تھا کہ یہ لوگ مجھے ڈرانا دھمکانا چاہتے ہیں کہ اپنے جدوجہد سے دستبردار ہوجاؤں ۔ استاد کو ان کے خیرخواہوں نے جلاوطنی کا بھی کہا تھا، جسے استاد نے مسترد کردیا تھا اور وہ اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر اپنا قومی فریضہ انجام دیتے رہے۔ استاد شاہد اپنے قاتلوں کو باور کرانا چاہتے تھے کہ میں تمہاری گولیوں کی خاطر کب سے اپنا سینہ تیار لیئے پھر رہا ہوں، اسی لیئے جس حالات میں سیاسی لوگ زیر زمین اور جلا وطنی کی پالیسیاں اپنا رہے تھے، استاد اس وقت بھی ریاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکار رہے تھے۔