شعور کا فیصلہ
تحریر : شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی سوچ انسان کے سماج کی پیداوار ہے لیکن نتائج ہر ذہن میں یکساں نہیں ہوتے اور یہی فطرت کی خوبصورتی ہے۔ ہر انسان حقائق کو اپنے نقطہ نظر سے پرکھتا اور نتائج اخذ کرتا ہے۔
جبر کچھ انسانوں کے لیئے ناقابل تسخیر حقیقت تو انقلابی کرداروں کے لیئے یہ ایک ریت کی دیوار مانند جھوٹ جسے وہ ڈھانے کے لیے تاریخ کے پنوں پر برسرپیکار نظر آئے۔ اسپارٹیکس کو ایک گلیڈیٹر کی تربیت ملی تھی اسے آقائوں کے اشارے پر موت کا تماشہ دکھانے کے لیے سدھایا گیا تھا لیکن اسی ہنر کو اس نے ایک بغاوت کا رنگ دیا اور ثابت کیا کہ انسان کسی بھی حالت میں آزادی کی پیاس رکھتا ہے اور جب بھی اظہار کا موقع ملے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پھر ہر غلام بول اٹھا میں ہوں اسپارٹیکس۔ آج بھی جب انسان غلامی کے خلاف نبردآزما ہوتا ہے، تب وہ اسپارٹیکس سے ضرور انسپائر ہوتا ہے کیونکہ اسپارٹیکس کے شعور نے اسے غلامی کے خلاف لڑنے کی دعوت دی۔
زرکسیز کے دیو مالائی فوج کے خلاف اسپارٹا کے لیونائڈس نے فقط اس لیے مزاحمت کی کہ اسے اور اس کے تین سو جانبازوں کو یاد رکھا جائے، وہ تیروں کے سایہ میں لڑنے سے نہیں ڈرے انہیں ڈر تھا تو فقط اس بات کا کہ وہ غلامی کا نوالا بن کر نہ رہ جائیں اور اگر ایسا ہوتا بھی تو انہیں کون یاد رکھتا؟
یہ لمبی کہانی ہے جس انسان نے جہاں بھی غلامی کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ لیا ہے، وہ اس کاروان میں شامل ہے اور ان کی روشنی آج ہم تک پہنچی ہے اور آج بلوچ جہد ان کی مشعل کو تھامے آگے بڑھ رہی ہے، آج بلوچ نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ ایک آزاد بلوچ ریاست کے بغیر بلوچ قوم کی اجتماعی بقاء ناممکن ہے اور اگر بلوچ اپنی ریاست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر بلوچ قوم کا مستقبل اندھیروں کی نظر ہوگا اور بلوچ قوم نہایت زبوں حالی کا شکار ہوکر نان شبینہ کے لیئے بھی سماجی جرائم کے چنگل میں پھنس جائینگے اور ان کو بالادست بطور گلیڈیٹر اپنے لطف کے لیے ایک دوسرے کا قتل عام کے لیئے استعمال کرینگے۔
آج کا بلوچ جہدکار اسپارٹیکس بن کر ابھرا ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے ہی دھرتی اپنے ہی بھائی کے خلاف موت کا تماشہ دکھانے سے انکار کردیا ہے، آج کا بلوچ ورنا لیونائیڈس ہے جو اس امید پر جدوجہد کو آگے بڑھا رہاہے کہ اسے یاد رکھا جائیگا۔ شاید زرکسیز اتنا بے رحم نہیں تھا جتنا آج کا دشمن لیکن پھر بھی شعور سے لیس فکر اس کے خلاف کھڑا ہے۔ ایسے میں بلوچ قوم بالخصوص بلوچ نوجوانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شعور کا ساتھ دیں نا کہ ان کا جو جبر کو ناقبل تسخیر حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ ان کا جو اسے ریت کی ڈیہہ جانے والی دیوار سمجھ کر اس کا مقابلہ کررہے ہیں۔