افغان طالبان نے سرکاری سکیورٹی فورسز کے ساتھ عید الفطر کے موقع پر تین روز کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔البتہ انھوں نے کہا ہے کہ ’’ غیر ملکی قابضین ‘‘ کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے گی۔
افغان طالبان نے صدر اشرف غنی کی عید الفطر کے موقع ایک ہفتے کے لیے جنگ بندی کے اعلان کے دوروز بعد اپنا ایک بیان جاری کیا ہے اور اس میں خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان جنگجوؤں پر کوئی حملہ کیا گیا تو اس کا بھرپور دفا ع کیا جائے گا۔اکتوبر 2001ء میں امریکا کی افغانستان پر فوجی چڑھائی کے بعد طالبان نے پہلی مرتبہ جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے۔
طالبان نے ہفتے کے روز وٹس ایپ کے ذریعے بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’’تمام مجاہدین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ عید الفطر کے پہلے تین روز کے دوران میں افغان فورسز کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں بند کردیں لیکن مجاہدین پر حملہ کیا گیا تو ہم شدت سے اس کا دفاع کریں گے‘‘۔
طالبان نے مزید کہا ہے کہ ’’جنگجوؤں کو بھیجے گئے ایک پیغام میں غیر ملکی قابضین ایک استثنا ہیں۔ ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔ہم جہاں کہیں انھیں دیکھیں گے،ان پر حملے کریں گے‘‘۔
افغان صدر اشرف غنی نے جمعرات کو یک طرفہ طور پر طالبان کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ستائیسویں رمضان سے عید کے پانچویں روز تک (12 سے 19 جون تک ) جنگ بندی جاری رہے گی۔
افغان صدر نے یہ اعلان کابل میں علماء کے ایک اجتماع کے بعد کیا تھا۔سرکردہ افغان علماء نے فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا اور خود کش بم دھماکوں اور حملوں کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا تھا۔اس فتوے کے ایک گھنٹے کے بعد ہی ایک خودکش بمبار نے اجتماع کے باہر خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں سات افراد مارے گئے تھے۔
افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ان کی حکومت علماء کے مطالبے اور جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کرتی ہے۔انھوں نے قبل ازیں فروری میں طالبان سے امن مذاکرات کے لیے ایک جامع منصوبے کا ا علان کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی حکومت طالبان کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے تسلیم کر لے گی۔انھوں نے اس وقت بھی طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان جنگ بندی پر زوردیا تھا لیکن طالبان نے اس پیش کش کا کوئی جواب نہیں دیا تھا اورافغان اور غیر ملکی فورسز کے خلاف اپنے موسم بہار کے سالانہ حملوں کا آغاز کردیا تھا۔