ریاست کے خلاف نتیجہ خیز جدوجہد، الیکشن سبوتاژ مہم
جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ان پانچ سالوں میں جب پاکستان کی حکومت اپنی مدت پوری کرچکی اور اگلے الیکشن کا اعلان کردیا گیا ہے تو لازمی ہے کہ بلوچستان میں تبدیل ہوئے عوامی سوچ پر سنجیدہ فکر بلوچ لیڈر شپ غور و فکر کر کے اس بات کا کھوج لگائے کہ کن اسباب کے تحت عوام کی ایک بڑی اکثریت کی سوچ و فکر میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔
یہ حقیقت ہے اسے تسلیم کیا جائے کہ ان پانچ سالوں میں اس کے باوجود کہ ریاستی مظالم، تشدد اور بربریت میں نمایاں اضافہ ہوا، عوامی سطح پر غیر پارلیمانی سیاسی سوچ میں کمی آئی ہے۔ اس الیکشن میں سیاسی جماعتوں کا تحرک اور عام لوگوں کو ان میں شریک کرنے کا عمل 2013 کی بہ نسبت زیادہ کامیاب دکھ رہی ہے۔
گذشتہ پاکستانی سرکار جس کا بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بھی حصہ تھیں، بلوچستان میں قتل عام، آپریشن، اغواء، تشدد زدہ لاشیں پھینکنے اور ہر گاؤں سے دیہات تک نئی فوجی چوکیوں اور چیک پوسٹوں کے قیام میں دو قدم آگے رہی حتی کہ ان پانچ سالوں کے دوران بلوچ خواتین کی اغوا، ان کے عزت کی پامالی جیسے غیر معمولی واقعات تک رونما ہوئے مگر ان سب کے باوجود ریاست کے بیانیے کو پارلیمانی پارٹیوں کے توسط سے پذیرائی ملی ہے۔
بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں اور غیر پارلیمانی نظریے کے حامل جماعتیں مختلف وجوہات کی وجہ سے وہ تاثر اور مقبولیت برقرار نا رکھ پائیں جو انہیں حاصل تھا۔ وہ وجوہات اور اسباب کیا تھیں ان کا کھوج لگانا بلوچ قیادت کی ذمہ داری ہے۔
مقبولیت کے گراف کا اتنے مختصر وقت میں نیچے آنا غالبا ایک تو ریاست کی جانب سے پیدا کردہ ڈر اور خوف کا ماحول ہوسکتا ہے، ریاست خون خوار درندے کی طرح جس پہ شبہ کرے اسے اغواء یا مسخ شدہ لاش بنا کے پھینک دیتا ہے۔ بلوچ تحریک سے محض ہمدردی کے شبے پر سینکڑوں افراد اذیت خانوں میں بدترین ٹارچر اور اذیت کا شکار ہیں، سالوں سے ان کا کوئی اتہ پتہ اور حال احوال نہیں۔ ڈر اور خوف کے اس بدترین ماحول کی وجہ سے عام لوگ اپنی وابستگی کا کھل کر اظہار نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ پارلیمانی سیاسی جماعتیں بھی خوف کے اس ماحول کو پیدا کرنے میں ریاست کے معاون ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اور وجوہات مسلح تنظیموں کی غلطیوں کے سبب بھی ہیں۔ اگر مسلح قیادت پچھلے چند سالوں کا جائزہ لیں تو بہت کچھ سمجھنے کو ملے گا۔ بڑی غلطیوں میں سے اندھا دھند بھرتی، غیر سنجیدہ، غیر تربیت یافتہ اور غیر سیاسی لوگوں کی عسکری محاذ پر قدم جمائی کا نتیجہ سرنڈر، طاقت کا غیر ضروری استعمال، معمولی اور ذاتی اختلافات و جگھڑوں پر مخالفین کو نقصان پہنچانا یا ریاست کے طرز پر، بے وجہ اپنے لوگوں کے اندر خوف کا ماحول پیدا کرنا وغیرہ جیسے افعال ان اسباب میں شامل ہیں۔ جو تحریک کی موجودہ شکل کا سبب شمار ہوسکتے ہیں۔
اب ضروری ہے کہ قیادت محض خواب دیکھنا بند کرے بلکہ عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے، اپنے صفوں میں احتساب کا شفاف عمل شروع کرے، غیر ضروری بھرتیوں کا سلسلہ بند کرے، طاقت کو مجاز ہاتھوں منتقلی کا عسکری فارمولا ترتیب دے اور لمبے عرصے تک حالات کیسے ہی ہوں اپنے غیر موجودگی کا تاثر پیدا نا کریں، بلکہ وقتا فوقتا کہیں نا کہیں بڑے شہروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں۔ اس سے عام لوگوں کا حوصلہ بلند رہے گا اور سرکار و اسکے گماشتوں کا تحریک کی کمزوری کے بارے میں پیدا شدہ غلط فہمی اور منفی پروپیگنڈہ زائل ہوگا۔
سب سے بڑھ کر اس آنے والے الیکشن کے خلاف بھرپور حکمت عملی تشکیل دینا اور اسے ناکام بنانا پہلی ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ اس الکیشن اور زور و شور سے جاری الیکشن مہم کو جب تک کنٹرول نہیں کیا گیا سرکار اور اس کے گماشتے سیاسی جماعتوں کو مذید غلط فہمیاں پیداکرنے اور منفی پروپیگنڈہ کا موقع ملتا رہے گا البتہ عام لوگوں اور ووٹر کے بجائے براہ راست انتخابی امیدوار اور پولنگ اسٹیشن کو نشانہ بنانے کی سودمند کوشش بہترین طریقہ ہے۔