حمید کی جدوجہد مشعل راہ ہے – ساچان بلوچ

479

حمید کی جدوجہد مشعل راہ ہے

ساچان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان کی تاریخ قربانیوں کی تاریخ ہے ظلم و جبر کی خلاف بغاوت کی تاریخ ہے، استحصالی و ظالمانہ نظام کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ میں ہزاروں لوگوں نے اپنے قیمتی جانوں کی پروا کیئے بغیر اپنے مادد وطن کے لئے جام شہادت نوش کرنے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

قومی تحریکوں میں تنظیم و پارٹی کا کردار اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح بلوچ قومی تحریک کی اگر بات کریں، تو بی ایس او کے کردار کے بغیر بلوچ قومی تحریک ادھوری ہے کیونکہ بی ایس او تحریک میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ بی ایس او نے اپنے وجود سے لیکر آج تک بلوچ قوم میں ایسے نوجوانوں کو جناجنہوں نے خود کو اس عظیم مقصد کے لئے وقف کردیا انہی کارکنوں میں سے ایک حمید بلوچ ہے۔

شہید حمید بلوچ پسماندہ سماج کے ایک ایسے روشن فکر انسان تھے جنہوں نے جبر و استحصال اور قبضہ گیریت کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے دنیا بھر کے محکوموں کے ساتھ بلوچ قوم کی سچی وابستگی کو تختہ دار پر لٹک کر ثابت کردیا۔

حمید بلوچ 1949 کو دشت کنچتی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول نوروز سے حاصل کیا۔ حمید بلوچ بچپن ہی سے ایک ذہین اور ہوشیار طالب علم رہے ہیں انہیں شعر و شاعری کے ساتھ دنیا کے محکوم و لاچار اقوام کی تحریکوں سے آگاہی حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ محکوم و مظلوم عوام کی تحریکوں کا مطالعہ کرتے تھے اور تحریکوں سے متاثر بھی تھے۔ چونکہ وہ خود بھی ایک محکوم و مظلوم قوم سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا اپنی قوم کی پسماندگی و محکومی کو محسوس کرتے ہوئے، اسے محکومی وپسماندگی سے نجات دلانے کے لئے انہوں نے جدوجہد کا فیصلہ کرکے میدان کارزار میں کود پڑنے کا فیصلہ کیا۔

شہید وطن حمید بلوچ بلوچستان کا سچا فرزند تھا وہ اپنے سرزمین پر جاری ظلم و جبر کو اپنے دل سے محسوس کرتا تھا وہ ایک انقلابی مارکسی سوچ کے ساتھ بی ایس او کا ایک نڈر اور دلیر بہادر ساتھی تھے، حمید بلوچ نے مزاحمتی جدوجہد کا انتخاب ایک ایسے عہد میں جبر کے خلاف کیا، جس عہد میں دنیا ایک انقلاب کی دہلیز پر تھا۔ انہوں نے ایک عملی مزاحمت کا اعلان کرکے بلوچ نوجوانوں کے شعور کو متاثر کرکے ایک نئی سوچ و فکر کو جنم دیکر ایک انقلابی روایت کی بنیاد رکھی۔

عمانی سلطان کے خلاف ظفاریوں کی تاریخی بغاوت کو کچلنے کے لئے، جب عمانی سلطان نےپاکستانی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ملکر بلوچستان کے نوجوانوں کو کرائے کے قاتل کے طور پر عمانی فوج میں بھرتی کرنے آئے، تو بی ایس او ہی وہ واحد تنظیم تھی جنہوں نے عمانی محنت کشوں کی حمایت کردی اور عمانی بادشاہ کے خلاف آگاہی مہم چلایا۔ جسمیں بلوچ نوجوانوں کو عمانی فوج میں بھرتی ہونے سے منع کیا گیا، اسی پاداش میں حمید بلوچ کو عمانی آفیسر پر قاتلانہ حملے کی پاداش میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور 11 جون 1981 کو مچھ جیل میں سرزمین کے اس فرد کو ایسے قتل کے پاداش میں تختہ دار کے بے رحم پھندے پر لٹکایا گیا، جس میں کوئی مقتول نہیں تھا۔

وہ ایک انقلابی جہد کار تھا، ایک انقلابی جہدکار کا معراج اسکی شہادت ہوتی ہے۔ حمید کی شہادت سے بی ایس او کے کارکنوں کو شعوری قوت ملا۔ انہوں نے شعوری بنیادوں پر تنظیم کو منظم کرکے انقلابی افکار کو اپنا مستقل راہ بنادیا اور ایک نئے حوصلے سے نجات کی منزل راہ بنادیا۔

شہید حمید نہ صرف ایک عظیم شخصیت تھے بلکہ وہ ایک فکر و فلسفے اور جہد مسلسل کا نام تھے، شہد حمید نے علمی اور عملی جدوجہد کو بغیر کسی مفاد کے بھر پور تقویت دی، شہید حمید کے افکار نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔ آخر میں شہید حمید بلوچ کے مشہور قول کے ساتھ تحریر ختم کرنا چاہتا ہوں “مجھے اس بات پر ذرا بھی پشیمانی نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کا خیال کہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیئے،. کیونکہ اگر زندگی بغیر مقصد کے ہو اور غلامی میں بسر کی جائے تو وہ لعنت ہے.”