جبری طور لاپتہ بلوچ افراد کے لئے لگائے گئے کیمپ کو 3090 دن ہوگئے.

172
file photo

بلوچ لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3090 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں ڈیرہ غازی خان سے بلوچوں کا ایک وفد شامل تھا.

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ فرزندوں کی قتل و غارتگری اور قید و تشدد کی سامراجی روایات اگرچہ نئی نہیں ہے تاہم اس بار یہ گھناؤنی روایات، درندگی، حیوانیت کی تمام حدیں پار کر چکی ہیں، بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کی پاکستانی فورسز اور ان کے خفیہ اداروں کی ہم بلوچ نسل کشی کی مہم بن چکی ہے. اس نسل کشی میں درندگی اور سفاکیت کی جو مثالیں قائم کی جارہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی قابض قوتیں نہ صرف بلوچستان کی سرزمین اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں بلکہ بلوچ قوم سے گہری نفرت اور عداوت کا بدترین مظاہرہ مظاہرہ کیا جارہا ہے جو سیاسی کارکنوں، طلباء، نوجوانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے بلوچ فرزندوں کی اغواء نماگرفتاریوں و گمشدگیوں کے بعد ان کی تشدد زدہ لاشوں کو ویرانوں سے برآمدگی کے انسانیت سوز المیوں کی صورت آرہی ہیں.

ماما قدیر نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں چالیس ہزار لوگ لاپتہ اور دس ہزار کے قریب بلوچوں کے تشدد زدہ مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جاچکی ہیں، ان تمام بلوچوں کو ماورائے قانون و عدالت گرفتار کر کے ریاستی حراست میں قتل کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے.

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کی یہ سفاکیت کئی سوال پیدا کررہی ہیں، بعض حلقے حیران ہے کہ آخر وہ کونسی ایسی وجوہات ہیں کہ پاکستانی حکمران بلوچوں کو اذیت ناک طریقے سے مٹانے کے درپے ہیں. بلوچ قوم کا بیرونی قبضہ اور قومی غلامی کا گہرائی تک احساس کرتے ہوئے شعوری طور پر بالغ نظر آتے ہیں.