تم بھی چھوڑکر چلے گئے بالاچ جان – شئے رحمت بلوچ

452

تم بھی چھوڑکر چلے گئے بالاچ جان

تحریر : شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

شہید بالاچ جان ایک انتہائی خوش و سادہ مزاج کے مالک انسان تھے۔ شہید بالاچ جان کی بنیادی تعلیم اتنی نہیں تھی لیکن انہوں نے ہم کو یہ سبق سکھایا جو دنیا کے کسی بھی کتاب میں موجود نہیں۔ شہید بالاچ نے ہمیشہ اپنی ذاتی زندگی کی ضروریات کو نظر انداز کرکے، جدوجہد کی طرف توجہ دینے کا عظیم سبق سکھایا۔ عظیم مقصد آزادی کیلئے پوری زندگی جدوجہد کرتا رہا۔ وہ بی ایل ایف کے بانی ممبروں میں سے ایک تھے۔

مشکے کے عوام کو شروع سے ہی قابض فورسز سے نفرت رہا ہے۔ ایک وقت تھا، جب پاکستانی فورسز کو مکمل آزادی تھی، وہ اپنے مرضی سے سب کچھ کرتے، ایک ایک دو دو گاڑیوں کے ساتھ مشکے سے خضدار، مشکے سے آواران آتے جاتے تھے۔ اپنی مرضی سے پکنک و غیرہ کرتے رہتے تھے، لیکن اس وقت تک جب تک بی ایل ایف نے مشکے میں کاروائیاں شروع نہیں کیں تھیں۔ لیکن کچھ وقت گذرنے کے بعد مشکے میں فورسز کے آپریشن شروع ہوگئے۔ گھروں کی تلاشی عوام کو روکنا، تنگ کرنا ان سے قیمتی سامان ضبط کرنا معمول بن گئے۔

شہید بالاچ نے اس کے خلاف مزاحمت شروع کی اور بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور اس جنگ کا حصّہ بنے۔ اس وقت جب جنگ دوبارہ اپنی شدَت میں آگئی تو سرمچاروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔ آپ نے اپنے عظیم ساتھیوں کے ساتھ عظیم مقصد کیلئے ہر طرح کے مشکلات کا سامنا کیا۔ کئی علاقوں میں بین الاقوامی جنگی اصولوں کے مطابق فورسز کے ساتھ جنگ لڑتے رہےاور باقی ہزاروں شہیدوں میں بالاچ نے اپنا نام شمار کرلیا۔

2012 کا وقت تھا، جب میہی میں پاکستانی فورسز نے آپریشن شروع کردی، جس میں ایف سی, آرمی اور آئی ایس آئی شریک تھے۔ جس آپریشن میں سو سے زائد گھروں کو جلایا گیااور میہی کے عوام کو میہی سے زبردستی سے نکالا گیا، شدید سردی کے موسم میں ان کے لئے ایک بھی گھر نہیں چھوڑا گیا، جس میں وہ ایک شام تک گذارا سکتے۔

شہید بالاچ کا بڑا بھائی، جس کا نام ارض محمد بلوچ تھا۔ انہیں اس آپریشن میں گرفتار کرلیا گیا اور مشکے لیاقت آباد کے کیمپ منتقل کرلیا گیا۔ وہان ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے، انہیں شہید کرکے انکی مسخ شدہ لاش کو ایف سے کیمپ سے باہر پھینک دیا گیا۔ اس کا گناہ یہی تھا کہ وہ بلوچ تھا اور ایک سرمچار کا بھائی تھا۔ جس نے اپنی حق مانگنے کیلئے آواز بلند کی تھی۔ ۔اس آپریشن میں فوجیوں نے عورتوں اور بّچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور مرد حضرات کو گرفتاری کے بعد شدید تشدد کے بعد رہا کیا گیا، جن میں سے زیادہ لوگ قرب المرگ تھے، اسکے باوجود فوجیوں نے انکو مشکے سے باہر جانے سے منع کردیا تھا۔ مشکے وہ علاقہ ہے جہاں بخار تک کا علاج نہیں ہو سکتا، آپ خود سوچ لیں، ان لوگوں کا پھر کیسے علاج ہوسکتا تھا؟

شہید بالاچ عمر میں اتنے بڑے نہیں تھے، لیکن وہ کم عمری سے ہی ڈاکٹر اللہ نظر جیسے عظیم ساتھیوں کے ہمراہ رہے تھے۔ اس کی باتوں سے پتہ چلتا تھا کہ وہ انتہائی سنجیدہ انسان تھے اور اس کی کارکردگی سے پتہ چلتا تھا کہ وہ عظیم اور بہادر انسان تھے ۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وطن کے غم اور وطن کا عشق آپ کو اپنی عمر سے کئی سال بڑا بنادیتی ہے۔ شہید کے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، جو آپکی شہادت کے وقت چھوٹے تھے، لیکن اس کی بڑی بیٹی نازینک کو پتہ چل گیا کہ میرے والد شہید ہوچکے ہیں، لیکن اس کی دوسری بیٹی مہلکہ کو اپنے والد کے شہادت کے دو سال بعد پتہ چلا ہے کہ انکے والد شہید ہوچکے ہیں۔ وہ روکر کہتی ہے، کیا میرے ابّو جان واپس نہیں آیئنگے؟ اپنے ابّو جان کے فوٹو کو گلے لگا کر روتی ہے۔

بس ان کو دلاسہ دینے کیلئے ایک لفظ کا استعمال ہوتا ہے، وہ دیکھو مہران اور رحمین جان کے والد ذاکر جان بھی شہید ہوچکے ہیں اور شہید رحمت کے چھوٹے بیٹے میرل جان کی مثال دی جاتی ہے۔ ایک گھر میں 20 سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں اور جب بات پوری خاندان کی کیجائے یعنی ڈاکٹر اللہ نذر کے خاندان کے تو 45 سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ ان سب کے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، جن کی آنکھیں منتظر ہیں کہ کب ہمارے والد لوٹ آئینگے لیکن ان کو پتہ نہیں کہ وہ کبھی واپس نہیں آنے والے۔

میہی میں آپریشن کے ایک سال بعد جب وہ واپس میہی آکر آباد ہوئے اور گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے، دوپہر کا وقت تھا، جب ان کی نظر باہر پڑی تو فوجی آچکے تھے۔ فوجیوں نے ان کو آواز لگائی کہ رُک جاؤ تو شہید اور ان کے ساتھیوں نے نظر انداز کرکے آگے بڑھے تو فوجی نے دوبارہ کہا بندوق پھینک دو، ورنہ ماردینگے۔ شہید نے زور سے آواز لگائی کہ یہ بندوق پھینکنے کیلئے نہیں اُٹھایا ہے اور کہتا ہے مارنا ہے چلاؤ گولی، جب شہید اور انکے ساتھی مورچے لیکر واپس ہونے لگے تو فوجی اپنی جان بچا کر واپس کیمپ کی طرف جانے لگے۔ شہید نے گوریلہ اصولوں کے مطابق گولی نہیں چلائی کیونکہ وہاں گولی چلاتا تو کئی معصوم اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ شہید نے بندوق کے ساتھ ہمیشہ صبر کا مظاہرہ کیا۔

اس کے بعد 2015 کو جب شہید شیہک جان کے والد فوت ہوگئے، تو مجبوراً ان کو گھر کی طرف واپس آنا پڑا۔ شام کو فوج بزدلانہ طریقے سے رات کے اندھیرے میں پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، تین سو کے قریب کماڈوز اتارے گئے۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی فائرنگ شروع ہوتی ہے، تو کئی ساتھی زخمی ہوجاتے ہیں۔ شہید بالاچ بھی زخمی ہوجاتا ہے، وہ زخموں کی پرواہ کیئے بغیر، جنگ جاری رکھتے ہیں۔ شہید بالاچ جب دیکھتا ہے کہ میرے باقی ساتھی زخمی ہیں، تو شیہک جان بالاچ کو کہتا ہے کہ آپ نکل سکتے ہو نکل جاؤ، وہ دیکھتا ہے کہ میرے باقی ساتھی زخمی حالت میں ہیں ، تو وہ فیصلہ کرتا ہے میں انکی حفاظت کرنے کی کوشش کرونگا اور دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان دے سکونگا۔ ساتھی ان کو بہت کہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ آجائیں لیکن وہ انکو منع کرتا ہے۔

شہید وہاں سے ساتھیوں کی کمک کرکے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اور شیہک زخمی حالت میں دو سے تین گھنٹے لڑتے رہے۔ جب گولیاں ختم ہوئیں تو شہید نے آخری گولی اپنے ہی سر پر مار کر شہید ہوگئے۔ تنظیم کی ہزاروں راز چھپانے کیلئے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، اپنے آپ کو گولی مارنا پسند کیا۔

کچھ مہینے کے بعد شہید کے چھوٹے بھائی حبیب کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ان کو اپنی بہنوں اور ماں کے سامنے شہید کرلیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک جوان لڑکے کو شہید کرلیا جاتا ہے۔ پورا محلہ اس بات کا گواہی دیتا ہے کہ وہ بے گناہ تھے۔ ان کی قربانیاں رنگ لائینگے اور بلوچستان کے آزادی کو ایسے فرزندوں کی قربانی آسان بنادیگی ۔