تحریک، کوتاہیاں اور تقاضے
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
فرانز فینن اپنی کتاب سامراج کی موت میں لکھتے ہیں کہ “اگر ہماری یونٹوں سے چھوٹی موٹی لاپروہی ہوجائے، تو دشمن اس کو خوب اچھالتا ہے اور لبریشن فرنٹ قیادت کو ان بے اعتدالیوں کے لیے موردِ الزام ٹھہراتا ہے، حالانکہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ قیادت کو اتنی بڑی طاقت کو اکھٹا لیکر چلتے وقت کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران قیادت کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے کسی یا جوان سےکوئی غلطی یا زیادتی نہ ہو جائے۔ وہ اپنے کارکنوں کے تمام کھلی اور چھپی سرگرمیوں سے من و عن واقف ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر کوئی ایسا کام ہو جائے جو بظاہر ضابطے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہو تو قیادت کے پاس اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مثال کے طور پر لبریشن فرنٹ کے مقامی ذمہ دار نے اپنے ہی ساتھی کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ تحقیق کرنے پر اس نے موقف اختیار کیا کے مرنے والے نے پارٹی منشور کے خلاف غداری کا ارتکاب کیا تھا، جس وجہ سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس دوران قیادت صرف ضمیر کے بل بوتے پر ہی فیصلہ کرسکتی ہے ۔ بصورت دیگر اس کے پاس کوئی ایسے شواہد نہیں جن کی بنا پر وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کر سکے۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی اس راہ میں جدوجہد کرنے والی اتنی بڑی تعداد کے لیئے کسی سخت ضابطے کی پابندی بہت مشکل ہے، اور پھر ایسی حالت میں جب مقابلہ بھی ایک استعماری قوت سے ہو جو اپنے مادی وسائل کے حوالہ سے بہت زیادہ منظم ہو۔”
اگر ہم فینن کی باتوں کو وسیع النظر ہوکر دیکھیں، تو موجودہ بلوچ قومی تحریک میں بھی ایسے آثار نظر آتے ہیں جہاں کسی بھی ایک ادنیٰ سے واقعے کو لیکر پوری تحریک یا تحریک سے جُڑے ایماندار قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے کردار اور عمل کو پست پُشت ڈال کر صرف ایک واقعے کی بنیاد پر انکو موردِالزام ٹہراکر انکی کردار کُشی شروع کی جاتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک چونکہ دنیا کی اکثر تحریکوں سے جدا اور مختلف شکل میں جاری ہے لیکن اس کی بنیادی سوچ اور منزل قطعی طور پر دوسری آزادی کی تحریکوں سے مختلف نہیں۔ بلوچ تحریک بلا شک قبائلی، نیم قبائلی اور مڈل کلاس جیسی نعروں کے گرد گھومتا ہوا اپنے سمتوں کا تعین کررہا ہے، جہاں سردار کی غلطیاں، سرکار کی مکاریاں اور مڈل کلاس کی اپر کلاس بننے جیسی خواہشات کے عندیے کو نظر انداز کرنا بلوچ بنیادی سوال سے روگردانی اور اپنے عظیم قائدین اورساتھیوں کی قربانیوں سے غداری ہوگی۔
موجودہ بلوچ تحریک جس کی داغ بیل تقریباً بیس سال قبل ڈالی گئی تھی جوکہ ماضی کے تجربات اور غلطیوں سے سبق حاصل کرکے آگے بڑھنے اور اجتماعی طور پر دشمن سے نبردآزما ہونے کی خاطر شروع کی گئی تھی، دراصل آج بھی اپنی ارتقائی مراحل میں ہے۔ جس کی واضح مثال بلوچ قومی تحریک میں پائے جانے والے رویے اور تنظیموں کو افراد کے گرد گھمانے والی سوچ واضح کرتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک سے منسلک حقیقی قیادت جو کہ گذشتہ کچھ سالوں سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہر ایک فرد کو اسکی حیثیت کے مطابق طاقت اور اختیار دیئے جانے چاہیئے تاکہ ماضی میں کی جانے والی غلطیاں پھر سے نہ دہرائیں جاسکے کیونکہ اس سے قبل بلوچ قومی تحریک ایک شخص اور اسکی طاقت کے گرد ہی گھوم کر مزاحمت یا سیاست کی شکل میں قبضہ گیر کے خلاف جدوجہد کرتے رہتے تھے، لیکن وہ مزاحمت اور مزاحمتی سیاست فرد واحد کی خاموشی، گرفتاری، سرینڈر یا شہادت کے بعد خاموشی اختیار کرلیتی اور قوم میں مایوسی کا سبب بنتے کیونکہ بغیر سوچھے سمجھے علمی اور شعوری بنیاد کے بغیر کسی بھی عمل کو شروع کرنے کا انجام فطری طور پر مایوسی اور خاموشی کی صورت میں ہی ہوتی ہے۔
گذشتہ تحاریک کے بابت استاد واحد قمبر کا آرٹیکل اور اُستاد عبدالنبی بنگلزئی کا تازہ انٹرویو ان تمام ایماندار سیاسی اور مزاحمتی جہدکاروں کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ وہ کس طرح سے جدوجہد کو آگے لے جانا چاہتے ہیں، آیا ہم کسی بھی چھوٹے سے مسئلے پر خود کو اندھیروں میں دھکیل کر اپنی طاقت دشمن سے موڑ کر اپنے صفوں میں موجود دوستوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں یا پھر دشمن سے جنگ کو جاری رکھتے ہوئے تنظیموں کو مضبوطی کی جانب لے جاکر جہاں دشمن اور اسکے حواریوں کے پروپیگنڈوں سمیت اپنی غلطیوں کے روک تھام کیلئے موثر ادارے تشکیل دے کر کرنا چاہتے ہیں؟ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ کوئی بھی تحریک اپنی منزل کو حاصل کرنے سے پہلے تک کسی بھی طرح سے غلطیوں اور کوتاہیوں سے پاک نہیں رہی پھر چاہے وہ چی گویرا اور کاسٹرو کی کیوبا کی تحریک ہو، مائیکل کولن کی آئرش تحریک ہو، نیلسن منڈیلہ کی افریقن تحریک ہو یا پھر فینن کی الجزائری تحریک ہو۔ ان تمام تحریکوں میں غلطیاں و کوہائیاں کسی نہ کسی طرح موجود رہی ہیں اور وہ کوتاہیاں ہمیشہ ہی قیادت کے سامنے چیلنجز کی شکل میں کھڑی رہی ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر اگر آج کی بلوچ تحریک کا مشاہدہ کیا جائے، تو بلوچستان میں سامراج اسی طرح کے حالات و واقعات پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
دشمن کہیں بلوچ تحریک کو کلاسوں میں بانٹ رہا ہے، تو کہیں قبائلی و غیر قبائلی نام پر بلوچوں کو دست گریبان کرنے کی کامیاب کوشش کررہا ہے، تو کہیں مذہبی حوالے سے ذکری اور نمازی کے نام پر بلوچ قوم کو لڑوانے کی جستجو کررہا ہے۔ ان حالات میں تمام حقیقی لیڈرشپ کو اپنی پوری قوت بلوچ قومی طاقت کو یکجاہ کرنے انہیں قبائلی، غیرقبائلی، اپر کلاس، مڈل کلاس ، ذکری اور نمازی جیسی خودساختہ بندشوں سے آزاد کراکر ایک آزاد جمہوری بلوچ ریاست کی آزادی کا سپاہی بنانے کی خاطر محنت و مشقت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کا بلوچ کیڈر کافی سوالات اپنے ذہن میں لیئے جواب طلب ہے جسکی وجہ ریاستی پروپیگنڈہ، مخالفین کی زہرافشانی سمیت کہیں نہ کہیں لیڈر شپ کی کمزوری بھی ہے۔ مگر اب بھی ہم اپنی غلطیوں کوتاہیوں ماضی کے تلخ تجربوں اور دنیاوی انقلابوں کی تاریخ کو اپنا رہنماء بناکر سمتوں کا تعین کرنے کی کامیاب کوشش کریں تویقیناً بکھری ہوئی طاقت کو یکجاہ کرنے اور منزل تک رسائی حاصل کرنے میں درپیش دشواریوں کو کم کرکے ایک بہتر اور آزاد بلوچستان کے حصول کو یقینی بناسکتے ہیں۔
جیسا کہ مرحوم مولوئی عبدالحق بلوچ نے فرمایاتھا کہ “جب ایک بچے کی پیدائش بھی خون کے بغیر ممکن نہیں تو اتنا بڑا انقلاب جو پورے تہذیب و تمدن کو بدل کر رکھ دے۔ اس کا خون کے بغیر آنا کیسے ممکن ہے؟”