بی بی گنجل کی وفات ایک صدمہ ہے – بی این ایم

208

پاکستانی زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں برداشت کررہے ہیں، بی بی گنجل کی وفات ایک صدمہ ہے. بی این ایم

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے ضلع آواران کے بی بی گنجل کی وفات کو ایک صدمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی مظالم سے دلبرداشتہ ایک بلوچ بہن اپنے شوہر اور چچازاد بھائی کے انتظار میں کل وفات پاگئیں۔ ان کے شوہر سفر بلوچ کو 24 اکتوبر 2013 کو حب چوکی میں اپنے گھر سے اور چچازاد بھائی بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری انفارمیشن شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو گورکوپ تربت سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے لوگوں کے سامنے اغواء کرکے لاپتہ کیا۔ اس دوران ان کے گھروں پر مسلسل چھاپہ مار کر انہیں تنگ کیا جاتا رہا۔ انہی مظالم سے تنگ آگر بی بی گنجل کے خاندان کے کئی افراد اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوگئے ہیں۔ ان کا ایک بھائی ظفر بلوچ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے، ظفر بلوچ جرمنی میں بی این ایم کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ہم ظفر بلوچ اور اس کے خاندان سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ اس طرح ہزاروں ماں بہنیں بلوچستان میں پاکستان مظالم سامنا کر رہی ہیں۔ کئی مائیں اپنا لخت جگر کھو چکی ہیں اور بہنیں اپنے بھائیوں کے انتظار میں راہیں تک رہی ہیں، لاپتہ افراد اور تشدد زدہ لاشوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ، غفور بلوچ، رمضان بلوچ اور ذاکر مجید سمیت ہزاروں بلوچ کئی سالوں سے پاکستانی زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں برداشت کررہے ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بازیابی کیلئے ان کی بیٹیاں سمی بلوچ اور مہلب بلوچ نو سال سے پریس کلبوں کے سامنے اپنی زندگی گزار رہی ہیں اور ماما قدیر کے ساتھ پچیس سو سے زائد کلومیٹر کا لانگ مارچ بھی کر چکی ہیں۔ اسی طرح رمضان بلوچ کا کمسن بیٹا علی حیدر اور ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید بھی کوئٹہ سے اسلام آباد پیدل لانگ مارچ کرکے احتجاج کرچکی ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ان مظالم کا مقصد بلوچ قوم کو بلوچ قومی تحریک اور غلامی کے خلاف جنگ سے دستبردار کرانا ہے مگر بلوچ قوم نے غلامی کا احساس اور ادراک کرتے ہوئے پاکستانی قبضہ کے خلاف ایک شعوری جد وجہد شروع کی ہے۔ اس جد و جہد کا منطقی انجام بلوچستان کی آزادی ہی ہوگا۔