بلوچستان کا روسو کامریڈ حسام بلوچ – توارش بلوچ

503

بلوچستان کا روسو کامریڈ حسام بلوچ

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شاید آپ کے لیئے یہ اچھبنے کی بات ہوگی کہ سنگت حسام کو میں روسو سے تشبیہہ دے رہا ہوں، اُنہیں دنیا کہ ایک عظیم شخصیت کے برابر درجہ دے رہا ہوں، لیکن اگر آپ نے حسام کو دیکھا نہیں، سُنا نہیں اور اُن سے ملاقات نہیں کی ہے، اُس کے ساتھ بات نہیں کی ہے، وقت نہیں گُذارا ہے تو آپ کو میں بلکل یہ اجازت دیتا ہوں کہ آپ مجھ سے اختلاف رکھ سکتے ہو، مجھ سے اتفاق نہیں کر سکتے ہو، میرے تحریر کو اہمیت نہیں دے سکتے ہو۔ لیکن جن لوگوں نے حسام کے ساتھ وقت گُذارا ہے، سیاسی گفت و شنید کی ہے، عالمی ادب پر بات کی ہے، نیشنلزم ڈسکس کیا ہے، اُس کے ساتھ عالمی سیاست پر گفتگو کی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ دوست مجھ سے اتفاق کریں گے۔

روسو کا نظریہ تھا کہ عوام ہی ریاست کا مقتدر اعلیٰ ہو، عوام ہی مقننہ رہیں اور ریاست میں بڑے فیصلہ عوام ہی کریں۔ پھر ناکہ ناانصافی ہوگی نا مظالم ہونگے اور نا ہی عوام کا استحصال ہوگا۔ لیکن جب تک ریاست سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوگا، امیر جاگیردار اور لٹیروں کے ہاتھوں میں ہوگا، تو عوام کا استحصال اسی طرح جاری رہے گا۔ روسو جائز کو جائز اور ناجائز کو ناجائز کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اصل میں وہ ایک انقلابی تھا، جسے عام انسان کا غم تھا۔ جو انسانیت پر یقین رکھتا تھا، جابر و قاتلوں سے نفرت کرتا تھا، روسو کے نظریات و افکار نے روسو کو کافی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔ وہ اپنے ہی سرزمین سوئٹزرلینڈ سے بے دخل کیا گیا، جب اُس کی عمر سولہ سال تھی، وہ اپنے سرزمین سے کافی محبت کرتا تھا لیکن وہ ایک انقلابی تھا اور ایک انقلابی کیلئے پوری دنیا اُس کی سرزمین کے مانند ہوتا ہے، روسو اپنے زندگی میں کافی مالی مشکلات کا سامنا کرتا ہے، یہاں تک کہ اپنے پانچ بچے وہ یتیم خانے میں بھیجتا ہے تاکہ وہ بھوک و افلاس سے مر نہ جائیں۔ ان سب مصائب کے باوجود بھی وہ اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے ظالم کو قبول نہیں کرتا۔ روسو علم و زانت سے لیس ایک مکمل انقلابی تھا، جس کا جنم تو 17ویں صدی میں ہوا، جس وقت لوگ لالچ و مراعات کی خاطر ایک دوسرے کو کچل رہے تھے۔ ایک دوسرے کو قتل کر رہے تھے لیکن روسو نے اُسی زمانہ میں ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا سیکھا تھا۔

روسو کی اس قدر دیانتداری اور ایمانداری کا سبب اُن کی پڑھائی تھی، وہ کافی پڑھتے تھے بچپن میں اُسے اپنے باپ سے تعلیم ملی تھی اور پھر جوانی تک وہ اتنا پڑھا تھا کہ اُسے پھر کوئی شکست نہیں دے سکا۔ اُس کو کئی بادشاہوں کی جانب سے لالچ و مراعات دینے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار وہ سچائی کا راستہ اختیار کرتا تھا، ایک مرتبہ روسو کسی دیوار میں اُس وقت کے بادشاہ کے خلاف کچھ لکھتا ہے، یہ ایک ایسا دیوار ہوتا ہے جہاں سب کو لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت کی خاطر اپنا دستخط بھی کرنا پڑتا تھا، سو روسو بادشاہ کے خلاف لکھتا ہے کہ وہ عوام پر استحصال بند کر دیں اور عوام پر مظالم کا سلسلہ جو پیچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے کو مزید جاری نہ رکھیں۔ جب بادشاہ کو اس کا اطلاع ملتی ہے، تو وہ اپنے کچھ سپاہی روسو کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجتا ہے، جب روسو کو اس کا اطلاع ملتی ہے کہ بادشاہ کے سپاہی اس کو گرفتار کرنے کیلئے دن رات ایک کر رہے ہیں تو وہ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پکڑا جاتا ہے اور بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جب بادشاہ اُس سے پوچھتا ہے کہ آپ نے یہ الفاظ میرے خلاف لکھے ہیں؟ تو روسو سچ کہہ دیتا ہے کہ ہاں یہ میں نے لکھے ہیں اور یہی حقیقت ہے میں سچائی ہمیشہ لکھتا رہوں گا، اس کے نتائج کتنے بھی بھیانک کیوں ناہوں۔ بادشاہ اس کی بہادری ہمت و جرات کو دیکھ کر روسو سے متاثر ہوتا ہے اور اُسے چھوڑ دیتا ہے۔

روسو کا نظریہ اتنا پختہ تھا کہ جب اُسے اُس کے ایک ڈرامے کی وجہ سے فرانس کے بادشاہ نے ایک تحفہ پیش کیا اور اُنہیں مراعات دینے کی کوشش کی تھی تو روسو نے یہ کہہ کر ان سب مراعات کو ٹھکرا دیا کہ میں عوام کا خادم ہوں اور اُن سے کوئی بھی تحفہ نہیں لے سکتا، جو عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ وہ حالات تھے، جب وہ مالی حوالے سے بہت زیادہ حد تک سُست تھا لیکن کبھی بھی اُس نے اپنی مجبوری کو اپنے نظریے سے زیادہ ترجیح نہیں دی اور مرتے دم تک اپنے نظریے پر قائم رہے۔

یہ پختہ نظریہ ہمت و بہادری اُسے تعلیم کی وجہ سے ملی تھی، وہ تعلیم نہیں جو اسکولوں میں ملتی ہے بلکہ وہ علم و تعلیم جو انسان کو خود اپنے ضمیر و تاریخ کے اوراق میں اُن شخصیتوں سے ملی تھی، جنہوں نے کبھی بھی عوام کے مفادات کا سودا نہیں کیا تھا اُنہیں پڑھ کر وہ اپنا ایک پختہ نظریہ رکھنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

آج روسو کو پوری دنیا میں لوگ جانتے ہیں، اُس کے نظریات کو کئی افراد نے اپنایا ہے اور سچائی کے راہ پر گامزن ہیں۔ جو یقیناً اُس کی انسان دوستی اور اُس کے قربانیوں کی ثمراث ہیں۔

ایسے ہی ایک عظیم شخصیت نوجوان حسام ہیں، جنہیں پاکستانی قابض فوج و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اُن کے دو ساتھیوں سمیت کراچی سے لاپتہ کیا تھا۔ حسام کو بہت کم لوگ جانتے ہیں (ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں)اس کی وجہ بلوچستان کے موجودہ حالات ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پیچھے پڑا ہے۔ بلوچستان میں جب بھی کوئی نوجوان اپنی سرزمین کی بات کرتا ہے، اپنے حقوق کی بات کرتا ہے، سچائی کی بات کرتا ہے اور قابض کے خلاف لکھتا ہے تو اُسے جلد ہی ریاست لاپتہ افراد میں شامل کرتا ہے۔ اسی لیئے حسام گمنامی کی زندگی گُذار رہا تھا۔ اس کی ایک اور وجہ بی ایس او آزاد تھا کیونکہ تنظیم نہیں چاہتی تھی کہ دشمن حسام پر نظر رکھ سکیں تاکہ وہ سلامت رہیں کیونکہ سنگت حسام کو آگے آنا تھا، اُسے اور بہت کچھ کرنا تھا۔ اُسے اور زیادہ کتابیں پڑھنا تھا۔ اُسے اور زیادہ لکھنا تھا لیکن قسمت کہیں یاکہ ریاستی مظالم کی انتہا اب حقیقت یہی ہے کہ کامریڈ حسام ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اب وہ کتابوں سے دور لکھنے اور پڑھنے سے محروم ہیں۔ کیا پتہ کہ ابھی تک وہ سلامت ہیں بھی نہیں لیکن آج سات مہینے بعد میں تنظیم کے ہر نوجوان کو سنگت حسام کی شکل میں پا رہا ہوں۔ جو کتابیں پڑھنے کا عشق سنگت حسام کو تھا، آج میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر نوجوان کتابیں تلاش کرتا پھر رہا ہے، ہر کامریڈ دوسرے سے کتابیں مانگ رہا ہے۔

جب بھی کسی دوست سے حال حوال ہوتا ہے تو اُس کا سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کون سے کتاب کا مطالعہ کر رہے ہو؟ اس کتاب کا مصنف کون ہے؟ جس کتاب کو آپ پڑھ رہے ہو، اس کا بلوچستان سے کیا تعلق ہے؟ اس سے آپ کیا سیکھ رہے ہو؟ اگر کتاب ختم کیا تو مجھ سے بھی اس کا اسٹوری شئیر کرو تاکہ میں بھی کچھ سمجھوں۔ سب دوستوں کا سوال کتاب پر شروع کتاب پر ختم ہوتا ہے۔ ایک ایسا ماحول بن چُکا ہے کہ اگر کوئی دوست کچھ مصروفیات کی وجہ سے کتاب پڑھ نہ سکے تو پریشان ہو جاتا ہے کہ میں کتاب نہیں پڑھ پا رہا ہوں۔ آج ہمارے دوست مارکس پر بات کرنے لگے ہیں، لینن کی کامیاب پالیسیوں پر ڈسکس کر رہے ہیں، نواب خیربخش مری جیسے نایاب شخصیتوں کی غلطیوں پر تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں۔

اس تبدیلی کا سہرا اگر میں سنگت حسام کے سر پر کروں تو غلط نہیں ہونگا، کیونکہ اُس نے سب کامریڈوں کو کتابوں کی اہمیت سے آشنا کیا تھا۔ وہ مجھے ہمیشہ نصیحت کرتا تھا کہ کامریڈ اگر ہم کتابیں نہیں پڑھیں گے، علم و تعلیم سے دور رہیں گے اور اپنے آپ کو بس اپنے تک محدود رکھیں گے پھر دشمن ہمیں جلدی کمزور کر سکتا ہے۔ اس حالت میں ہم اُس کے چالوں کو بھانپ نہیں پائیں گے اگر ہم دنیا کو پڑھیں گے نہیں، تو ہم اپنے جدوجہد کو ایک اچھا سمت نہیں دے سکتے ہیں، اس لیے ہم سب کیلئے ضروری ہے کہ کتابیں پڑھیں ناکام تحریکیں پڑھیں تاکہ وہی غلطی یہاں دوہرائے نہ جا سکیں۔ دشمن ہمارے خلاف ہر روز نت نئے حربے استعمال کر رہا ہے۔ ہمیں مختلف ذرائع سے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمارا تنظیم جو ایک اسٹوڈنٹ تنظیم ہے پر ریاست اپنی پوری زور لگا رہا ہے، اس کی وجہ ہمارے دوستوں کی تعلیم سے نزدیکی ہے اس لیئے اپنا زیادہ وقت ہمیشہ کتابیں پڑھنے میں صرف کرو۔

کامریڈ آپ کے نصیحت آج بھی مجھے یاد ہیں، میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں کہ کتابوں سے اپنے آپ کو زیادہ نزدیک رکھوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں آپ کو مبارک بھی دینا چاہتا ہوں کہ آپ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔ آج ہمارے سارے کامریڈ کتابیں پڑھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں کیونکہ آج سب دوست سمجھ چُکے ہیں کہ ریاستی ادارے آپ عزت چراگ اور عطا جیسے نوجوانوں کے پیچھے کیوں پڑا تھا؟ کیونکہ آپ سب کتابیں پڑھنے کے فلسفہ پر یقین رکھتے تھے۔

سنگت حسام کے اوپر میں کتنا بھی لکھوں کتنے بھی الفاظ جوڑ دوں لیکن میرے الفاظ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ سنگت حسام کے کردار کی وضاحت کریں وہ ایک ہیرہ تھا، ایک انمول ہیرہ جنہیں ہمارے ساتھ رہنا تھا، جنہیں دوستوں کی تربیت کرنا تھا کہ ہمیں کتاب پڑھنا ہے۔ جنہیں دشمن کے نت نئے حربوں کا خلاصہ کرنا تھا، جنہیں عالمی سیاست میں نئے نئے آنے والے چیلنجزز کا بلوچستان پر اثرات کا جائزہ لینا تھا، جنہیں دوستوں کو لکھنے کی ہنر سے آشنا کرانا تھا، جنہیں بلوچ قومی تحریک میں سر اُٹھانے والے غلطیوں کی نشان دہی کرنی تھی، جنہیں نوجوانوں کو سکھانا تھا کہ دنیا میں قومیں کیسے آزادی حاصل کر چُکے ہیں۔ جنہیں وقت و حالات کے مطابق کام کرنے کے طریقے سے آراستہ کرنا تھا۔ لیکن آہ! حسام جان اب آپ ہمارے ساتھ نہیں رہے، اب ہم کس کے ساتھ عالمی سیاست پر ڈسکس کریں؟ نیشنلزم اور سوشلزم جیسے پیچیدہ الفاظ کا مفہوم کس سے دریافت کریں؟ آج ہم سب شدت سے آپ کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ کاش! آپ ان کھٹن حالات میں ہمارے ساتھ مزید کچھ وقت گُذارتے ہمیں مزید کچھ سکھاتے لیکن بدقسمتی سے آپ جلد ہی ہم سے جسمانی حوالے سے جُدا ہوئے لیکن یہ ہمارا ایمان ہے کہ بلوچستان کی آزادی تک آپ کا کاروان منزل مقصود کی جانب جاری و ساری رہے گا۔

کامریڈ حسام کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور سندھ رینجرز نے 15 نومبر 2017 کو کراچی سے سنگت نصیر کے گھر سے بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل عزت جان عرف ثناء اللہ مرکزی سی سی ممبر چراگ جان عرف نصیر جان اور رفیق جان عرف کمبر جان سمیت اغواء کیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔