بلوچستان: فوجی دستوں کی کارروائی تنقید کی زد میں – جرمن نشریاتی ادارہ

399

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں بدھ کو کی گئی نیم فوجی دستوں کی اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس میں پاکستانی طالبان کے 4 کمانڈروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

بدھ کی شام کوئٹہ میں پولیس کے ڈی آئی جی، عبدالرزاق چیمہ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ ضلع مستونگ کے علاقے دشت تیرہ میل میں شدت پسندوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ان کے بقول اس مقابلے میں ٹی ٹی پی کے چار شدت پسند ہلاک ہوئے اور ان کے زیر استعمال کمپاؤنڈ سے بھاری اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔

میڈیا کو جاری کی گئی تصاویر میں مبینہ شدت پسندوں کے کمپاؤنڈ سے روایتی بلوچی لباس میں ملبوس ایک  خاتون کی لاش کو بھی دکھایا گیا ہے۔

بلوچستان میں علحیدگی پسند تحریک میں شامل ایک کالعدم تنظیم کے رہنماء نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ دشت میں ہونے والی مذکورہ کارروائی جعلی اور زمینی حقائق کے بالکل برعکس تھی، “یہ کارروائی انہی واقعات کا ایک تسلسل ہے، جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ باقاعدگی سے پیش آرہے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو گرفتاری کے بعد چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ حکومت کی نظر میں حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والا ہر شخص دہشت گرد ہے۔ اس حالیہ کارروائی میں بھی لاپتہ بلوچوں کو قتل کر کے دہشت گرد ظاہر کیا گیا ہے۔ جس خاتوں کو شدت پسند کمانڈروں کی فہرست میں دکھایا گیا ہے۔ وہ ایک لاپتہ بلوچ تھی جسے بد ترین تشدد کے بعد دشت میں مبینہ طور پر قتل کر کے دہشت گرد ظاہر کیا گیا۔ ہم ہمیشہ سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں لیکن ہماری داد رسی کوئی نہیں کر رہا۔”

علیحدگی پسند رہنماء نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستانی قید خانوں میں اب بھی سینکڑوں لاپتہ بلوچ افراد موجود ہیں مگر کوئی ادارہ ان کے خاندانوں کو انصاف فراہم نہیں کر رہا ہے۔ ان کے بقول، “پاکستان میں انصاف کے تمام اداروں سے ہمارا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی اداروں نے بلوچوں کو حقوق سے دستبردار کرنے کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی کی ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب بلوچوں کو حقوق کے لیے شروع کی گئی جنگ سے کوئی دستبردار نہیں کر سکتا۔”

بلوچ علیحدگی پسند رہنما کا مزید کہنا تھا کہ مردوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین کو بھی بلوچستان سے گرفتار کر کے لاپتہ کیا جا رہا ہے، ” کیا کوئی انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزیوں پر خاموش رہ سکتا ہے ؟ جب خواتین کو بھی اس طرح بے دردی سے قتل کیا جائے گا تو بلوچ عوام حکومت سے نفرت نہیں تو اور کیا کریں گے؟ ‘‘

دشت تیرہ میل میں نیم فوجی دستوں کی اس کارروائی پر سوشل میڈیا میں بھی شدید تنقید کی گئی ہے ۔

خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزرنے والے بلوچ علیحدگی پسند رہنما فیض بلوچ نے دشت میں ہلاک ہونی والی بلوچ خاتون کی تصویر کو ٹویٹ کیا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں فیض بلوچ نے لکھا ہے کہ دشت میں بلوچ خاتون اور ایک بچے سمیت 4 افراد کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے۔

سکیورٹی امور کے ماہر میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کے بقول بلوچستان میں قیام امن کے لیے ہونے والی کوشش کے از سرنو جائزے کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ” میرے خیال میں اس وقت حالات بہت بدل چکے ہیں۔ ایسی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہیے جو قیام امن کے اقدامات میں خلل کا باعث بنے۔ میری ذاتی طور پر یہ رائے ہے کہ اگر نیم فوجی یا فوجی کارروائیوں کے دوران شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے تو باقاعدہ ثبوت کے ساتھ ان افراد کی شناخت واضح کی جائے تاکہ ابہام نہ رہے۔ ان الزامات کی آزاد سطح پر تحقیقات بھی ہونی چاہیے۔”

عمر فارق کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن قائم ہونے سے ملک بھر میں مجموعی سلامتی کی صورتحال میں نمایاں بہتری سامنے آ سکتی ہے۔ ان کے بقول، “حقوق کے لیے آواز بلندکرنا کوئی جرم نہیں ہے لیکن اگر اس آڑ میں امن عامہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے تو اسے بہتر بنانا حکومت کی اوّلین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ میرے خیال میں اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ حکومت بلوچستان میں عوام کے تحفظات دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرے۔ جب تک حکومت پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا، کسی کارروائی کے دور رس نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔”

واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں گزشتہ سال کھڈ کوچہ کے علاقے میں بھی سکیورٹی فورسز نے کئی سرچ آپریشن کیے تھے۔ ان کارروائیوں کے دوران شدت پسند تنظیم داعش کے 12 کمانڈروں سمیت لشکر جنگھوی نامی تنظیم کے کئی سرکردہ جنگجو بھی مارے گئے تھے۔

بدھ کے روز ہونے والی کارروائی کے دوران دشت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اہم کمانڈر عاصم حسینی کی ہلاکت کا دعوٰی بھی کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران ٹی ٹی پی نے بلوچستان میں 10 سے زائد ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

بلوچ قوم پرست تنظیموں کا موقف ہے کہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر دیگر صوبوں کے لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور وفاق بلوچستان کے عوام سے مسلسل ناانصافی کرتا چلا آ رہا ہے۔ بلوچ تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاپتہ بلوچوں کی بازیابی اور بلوچوں کو اپنے قدرتی وسائل پر حق حاکمیت دیے بغیر صوبے میں استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں سلامتی کی صورتحال کے لیے جہاں دیگر کئی اقدامات کیے گئے ہیں وہیں صوبائی اور مرکزی سطح پر ناراض بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کی کئی بار پیشکشیں بھی کی گئی ہے۔ ان پیشکشوں پر ناراض بلوچ رہنماؤں نے اب تک مثبت ردعمل اس لیے ظاہر نہیں کیا ہے کیونکہ یہ رہنماء ان حکومتی شخصیات کو بے اختیار سمجھتے ہیں، جو مذاکرات میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔