Ethos, pathos, اور logos
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ مقصد کیا ہے؟ مادہ کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ انسان کے احساسات، خواہشات، جذبات، خوشی و غم، نیکی و بدی، اچھائی و برائی کیا ہیں؟ میں کیا ہوں؟ روح کیا ہے؟ کائینات کیا ہے؟ دوسرے کیا ہیں؟ معاشرہ، قوم، غلامی، آزادی، ریاست، قانون، تنظیم، اخلاقیات، خدا، مذہب، عقیدہ، تقدیر، منطق و دلیل، خواب، عقل وشعور، ادراک، تخلیق، ماحول، تربیت، ذہن سازی، فکرو اعتبار، بے اعتباری، وفاوبے وفائی، دکھ و اذیت، خودغرضی، خوف، لالچ، جھوٹ، سچائی، فطرت، حقیقت یہ سب کیا ہیں؟ اشیاء کی وجود، ہییت، اہمیت اور ضرورت کیا ہیں؟
انسان اور حیوان میں نمایاں اور بنیادی فرق یہی سوالات اور حصولِ جواب کی جستجو ہوتی ہے۔ اگر انسانی ذہن میں ان سوالات کا بوچھاڑ نا ہو اور انسانی شعور ان گٹھی میں پائے ان جوابات کو پانے کی جستجو سے عاری ہو، تو پھر صرف شکل و صورت، رہن سہن کی حد تک فرق کو لیکر حیوانوں سے انسان مختلف نہیں ہوسکتا۔
کہیں سوالات، الجھنوں، وسوسوں، واہمات، خدشات، مشکلات اور ذہنی تناو کو لیکر اپنی اوقات اور بساط کے مطابق، کئی دروازوں کو کھٹکھٹاتے ہیں۔ کبھی مذہب، کبھی عقیدہ، کبھی سماج، کبھی معاشرہ، کبھی روایات، کبھی سیاسیات، کبھی نفسیات، کبھی سائنس (حالانکہ سائنس بھی علم فلسفیات سے مختلف نہیں ) کے سامنے سجدہ ریز جستجو و اشتیاق کی تشنگی بجھاتے ہیں۔ لیکن کہیں مطمین کن جواب نہیں ملا، وہ علم فلسفہ ہی ہے جو زندگی سے لیکر زندگی کے پیچیدہ معمالات و مسائل کو علم و حکمت سے انتہائی محدود حد تک ہی صحیح مگر آگاہی و شعور ضرور بخشتی رہی ہے۔
جی ہاں! وہ علم فلسفہ ہی تھا، بقول فلسفی ول ڈیورنٹ کہ “اصل فلسفہ تبھی شروع ہوتا ہے، جب انسانی ذہن اپنی طرف متوجہ ہواور خود کو پرکھنے کی صلاحیت پیدا کرلے، کیا ذات کا تجزیہ کرنااور نتیجہ کسی صریح یقین پر پہچنا ممکن ہے؟” سقراط کا ایک مقولہ جملہ بہت مشہور اور مقبول ہے “میں ایک بات بخوبی جانتا ہوں، میں کچھ نہیں جانتا ہوں۔”
تو کیا تلاشِ ذات ساری زندگی فلسفیانہ بشخوں کی نذر کرنے کے انجام محض، میں کچھ نہیں جانتا ہے؟ شاید سقراط کا یہ جملہ اس کی انکساری کا ثبوت ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اس میں اور بھی ذیادہ دلچسپی پیدا ہوئی۔ سقراط کی سب سے بڑی کامیابی سننے والوں کو سوچنے اور مسلمہ قوانین اور دستوروں کے بارے میں سوال اٹھانے اور ان پر شک کرنے کی تحریک دینا تھا۔
ول ڈیورانٹ مزید کہتا ہے کہ “ممکن ہے کوئی سخت مزاج پڑھنے والا یہاں رکے اور کہے فلسفہ ایسا ہی بیکار شے ہے جیسے کہ شطرنج اور اسی قدر تاریک ہے جیسے کے جہالت اور اتنا ہی جامد ہے، جتنی کہ قناعت۔”
فلسفی سسرو علم فلسفہ کے بارے میں کہتا ہے کہ “ایسی مہمل بات کوئی نہیں جو فلسفہ کی کتابوں میں نہ مل سکتی ہو۔” امانوئیل کانٹ کہتا ہے کہ “فلسفہ ادراک و تعقل کے انتقاد کا نام ہے۔” برٹرینڈرسل کہتا ہے کہ فلسفہ “صحیح علم تک پہنچنے کیلئے خلاف معمول ایک شدید کوشش سے جنم لیتا ہے۔”
بقول جان ڈیوی “فلسفہ ایک ایسی سوچ ہے، جسے آگاہی حاصل ہوچکی ہے۔” ولیم جیمز کے مطابق “فلسفہ واضح طور پر غور و فکر کرنے کی ایک غیر معمولی و مستقل کوشش کا نام ہے۔”
فلسفے کے معروف پروفیسر ڈاکٹر وحید حشرت نے کہا تھا کہ “کسی صاحب نے مجھ سے کہا، سنا ہے فلسفی نیم دیوانہ اور نیم پاگل ہوتے ہیں۔ میں نے کہا جی بلکل یہ درست ہے تاہم یہ بات ذہن میں رہے جو لوگ فلسفیانہ بصریت اور حکمت سے بہرہ ور نہیں ہوتے وہ پھر مکمل پاگل اور دیوانے ہوتے ہیں۔ اس لیئے وہ کبھی بھی صحیح طریقے سے معمولی اور غیر معمول مسائل اور معمالات کا شعور اور ادراک نہیں کرسکتے ہیں۔”
قدیم یونانی فلسفی اپیکورس اپنے ایک دوست کو فلسفے کے بارے میں ایک خط لکھتا ہےاور کہتا ہے کہ “کسی شخص کو جب تک وہ جوان ہے، فلسفیانہ تعلیم حاصل کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر وہ ضعیف ہے، تو فلسفے کی تعلیم کی حصول میں تھکن ظاہر نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ وہ کون شخص ہے وہ اپنی روح کی صحت کے علم کو حاصل کرنے وقت موذوہیت و نا موذوہیت اور تاخیر خیال کرے گی اور جو شخص کہے گا فلسفہ سیکھنے کا ابھی تک وقت نہیں آیا ہے یا گذر چکا ہے؟ اس کی مثال اس شخص کی ہے جو کہتا ہے ابھی تک زندگی میں مسرت کا وقت نہیں آیا ہے یا وہ گذر گیا ہے۔”
ہیومانگا یونیورسٹی huamang university پیرو کے فلسفے کے پروفیسر مینویل روبن ابیمائیل گزمن رینوسو جو بعد میں فلسفے کی پروفیسر کی علمی تحقیقی غور و فکر اور عمل کے سفر کو طے کرکے آخر کار سابقہ پروفیسر اور مشہور زمانہ ماؤ سٹ تحریک ’’درخشاں راستہ ۔Shining Path ‘‘ کے گوریلا لیڈر چیرمین گونزیلو بن کر جب جیل میں تھا تو ایک نوجوان لفٹیننٹ ایک دن دوران تفتیش چیرمین سے پوچھا “اگر میں انقلاب برپا کرنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیئے؟”
چیئر مین نے جواباً کہا: “تم میری لائبریری کیوں نہیں چلے جاتے ہو کہ جہاں تم ابتداء میں سب سے پہلے فلسفے کے بارے میں فلسفے کی تاریخ کا مطالعہ شروع کرو، جو قطعاً مشکل نہیں ، اسکے بعد تم مارکس و لینن کی 57 جلدوں پہ مشتمل تمام کتابیں پڑھ ڈالو کہ جس میں میرے پاس دو مختلف اشاعتیں بھی ہیں۔ اُس کے بعد تم اسٹالن کا مطالعہ کرنے بیٹھو جو قدرے آسان ہے، صرف 7 جلدیں اور آخر میں تم ماؤ کو سمجھنے کی کرو کہ جس کی قریب 4 جلدیں ہیں، اس کے بعد تم خود ہی جان جاؤ گے کہ تمہیں کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا ہے۔ جب آپ ہیومانگا یونیورسٹی میں اس وقت بحیثیت فلسفے کے پروفیسر تھے۔ اس دوران انہوں نے طلبہ کو فلسفے کی تعلیم کیساتھ ساتھ معاشرے میں اُسکے اطلاق کی بھی ہدایت کرتے ہوئے یہ بھی کہتا تھا کہ فلسفے کو محض دنیا اور چیزوں کو بیان کرنے کا علم نہیں بلکہ اسکے بدلنے کا علم گرداننا چاہیئے یعنی انقلابی سوچ پیدا کرکے انقلاب برپا کرنا ہوگا وہ فلسفیانہ انداز میں طالبعلموں کی ذہنی تربیت کرتا تھا، بعد میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان گوریلا جنگ کیلئے کمربستہ ہوگئے۔
مختصراً یونانی لفظ فلسفے کی تعریف اور مفہوم حکمت سے محبت ۔ تو ابتدائی یونانیوں کا ایک فلسفہ بہت اعلیٰ تھا اور اہم تھا، ان تین ترتیب وار لفظوں میں بیان کیا گیا ہے pathos .ethos اور logos یعنی پہلے دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور موثر طریقے سے اپنی بات پیش کرنے کا نچوڑ ان تین لفظوں میں ہے۔
1. Ethos
سب سے پہلے آپ کا ذاتی شرافت رویہ اخلاق کردار عمل قابلیت اور صلاحیت کس سطح پرہے اور کیسا ہے؟
2. Pathos.
آپ کے اوپر دوسروں کے دل و دماغ میں بھروسہ، یقین، ہمدردی، اعتماد، محبت کے جذبات درد احساسات کا سطح کہاں پر ہے اور کس حد تک ہے۔
3. logos
منطق دلیل ثبوت اور قائل کرنے کی کوشش ہوتا ہے۔
ہم اگر بحثیتِ بلوچ قوم ذرہ بھی فلسیفانہ علم کی روشنی میں غور کریں، باریک بینی سے جائزہ لیں تو لیڈر کارکن کو، کمانڈر سپاہی کو اور تحریک سے وابستہ تمام جہدکار پورے بلوچ قوم کو کس طرح اور کیسے اپنے فکر، اپنے مقصد، اپنی پالیسیوں اور اپنے پروگراموں پر مطمئن اور آمادہ کررہے ہیں اور کرسکتے ہیں؟
لیڈر، کارکن، کمانڈر، سپاہی اور پوری بلوچ قومی تحریک کی ethos کی اصل حالت و سطح آج کیا ہے؟
بلوچ قوم کے دلوں میں pathos لیڈر، کارکن، کمانڈر، سپاہی اور تحریک کیلئے بھروسہ درد محبت جذبہ اور احساس کا پیمانہ اور سطح کیا ہے؟ کس مقام پر کھڑا ہے؟
تب جاکر logos یعنی اپنی فکر و مقصد تحریک اور قومی جنگ کے حوالے سے لیڈر کارکن کو کمانڈر سپاہی کو پھر سب ملکر تحریک کی شکل میں پورے قوم کو دلیل و منطق علم اور ثبوت کے ساتھ مطمین کرکے جنگ کیلئے عملی طور پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
علم فلسفے کے تناظر میں جب آپ ethos اور pathos کو نظر انداز کرکے سیدھا logosپر چھلانگ لگاتے ہو، تو وہ پھر وقت کا ضیاع اور بے فائدہ ہے۔
آج میری ذاتی رائے اور تجزیئے کے مطابق بلوچ قومی تحریک میں آپسی اختلافات آپسی جھگڑوں اور سوشل میڈیا پر منفی مہم کی وجہ سے بڑی حدتک بلوچ قوم میں تحریک کے حوالے ہمدردی، جذبات اور بھروسہ جو 8 برس پہلےتھا، آج وہ نہیں ہے۔ دشمن کی بلوچ تحریک کے خلاف بے رحم پالیسی، اپنی جگہ لیکن آپسی اختلافات آپسی کشت و خون اور خاص کر سوشل میں دنیا کے سامنے دشمن کے سامنے اور بلوچ قوم کے سامنے ایک دوسرے کو آخری حدتک غلیظ ترین حدتک بدنام اور رسوا کرنے کی مہم بلوچ قوم میں، بلوچ قومی تحریک اور کارکنوں میں لیڈرشپ اور سپاہیوں میں کمانڈروں کے بارے میں یقین اعتماد ہمدردی کے جذبات اور احساسات کو بڑی حد تک مفلوج کرگیا۔
تو پھر کیا ایسے صورتحال میں صرف اور صرف logos پر کھڑے ہوکر کوئی لیڈر، کوئی کمانڈر، اپنے مخلص، ایماندار، باشعور کارکنوں اور سپاہیوں کو مکمل مطمین کرسکتا ہے ؟ (قطع نظر اندھادھند فالورز اور درباری خوشامدی کارکنوں اور سپاہیوں کے)اور کیا پوری تحریک بلوچ قوم کو دوبارہ بھروسہ دلاسکتا ہے صرف logos پر کھڑے ہوکر؟
بدقسمتی سے یہاں logos کبھی وجود نہیں رکھتا تھا، یہاں تو صرف اور صرف ایک کو صحیح کہنا دوسرے کو غلط ثابت کرنے، وہ بھی دلیل و منطق سے نہیں بلکہ جھوٹ، دھوکے، الزام تراشی، کردار کشی، جھوٹی تسلی دینے اور سبزباغ دکھانے سے لیکر معمولی سے معمولی اشیاء اور خوردو نوش پر خوش اور آمادہ کرنے یا پھر سوشل میڈیا پر کچھ تعریفی و مخالف پوسٹ شیئر لائیک، کمنٹ، پروفائل فوٹو کے ذریعے لوگوں کو مطمین کرنے کی کوشش کرنے کے۔ وہ اعتماد، وہ جذبہ، وہ یقین، وہ احساس، وہ حوصلہ، دوبارہ زندہ ہوگا ؟علمِ فلسفہ کے تناظر میں مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے؟ پھر علم فلسفہ غلط ہے؟ یا ہم غلط ہیں؟ ہمارے تجزیے، حافظے اور زوایہ نظر غلط ہیں؟ دونوں میں سے ایک پھر ضرور غلط ہے۔
اگر ہم فلسفے کا تھوڑا بہت مطالعہ کریں بشرطیکہ فلسفے کو صحیح سمجھیں اور اس پر مکمل عمل کریں یعنی بے قراری اور تجسس سے پڑھیں، تو ہم حیران ہونگے کہ بلوچ قوم اپنی جگہ بلوچ نوجوان خاص کر قومی تحریک سے وابستہ نوجوان تحریکی مسائل اور معاملات کو کیسے اور کس طرح دیکھتے، سمجھتے اور آراء قائم کرکے فیصلہ کرتے ہیں؟ کبھی کبھبار انتہائی افسوس اور دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کم از کم بلوچ تحریک سے وابستہ جہدکاروں کو بھیڑ بکریوں کی ریوڑ کی طرح نہیں ہونا چاہیئے، کم ازکم اگر حقیقی نظریاتی انقلابی بننا ہے یا دل میں خواہش موجود ہے، تو انسان کی روپ میں بھیڑ و بکری اور جانور نہیں بننا چاہیئے۔
اگر ایک منظم اور موثر عوامی تحریک اور عوامی جنگ کے خواہاں ہیں، تو پھر ہمیشہ تحریکی اور تنظیمی تمام تر چھوٹے بڑے مسائل اور معاملات کو روایتی طرز کے بجائے، فلسفیانہ انداز میں دیکھنا ہوگا اور ان کا حل نکالنا ہوگا۔ بغیر اس کے نہ تو مسائل و معاملات کی اصل وجوہات کو سمجھ سکیں گے اور نہ ہی اس کے صحیح اور مستقل حل نکلیں گے۔ پھر انسان خود ہمشہ الجھن تذذب اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ تحریک کے ساتھ وابستہ ہوگا یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔ تذذب اور ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ تحریک سے وابستگی ایسا ہے، جیسا لوگوں کی ایک دوڑ میں پولیو کا کوئی مریض شامل ہو۔
ضرورت اسی امر کی ہے کہ کم ازکم اب بلوچ نوجوانوں کو اپنا ماضی پرستانہ تمام نقطہ نظر، مزاج اور رویوں کو یکسر مسترد کرنا ہوگا، ایک نئے زاویہ نظر اور عینک سے تمام چیزوں کو دیکھنا اور پرکھنا ہوگا۔ تب تحریک عوامی تحریک اور انقلابی مکمل انقلابی بن جائینگے۔