بالادست قوتیں بلوچستان کی حقیقی تصویر سامنے لانا نہیں چاہتے ہیں – ماما قدیر بلوچ

325

جبری طور پر لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے لگائے گئے کیمپ کو 3099 دن ہوگئے.

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کی بازیابی کے لئے لگائے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3099 ہوگئے، بی این پی قلات کے ایک وفد نے لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا- وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیر مین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ بلوچوں کو لاپتہ اور ان کی تشدد زدہ مسخ لاشیں پھینکنے والے پاکستانی خفیہ ریاستی دہشتگردی کی تاریکی میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں اور جو بھی اس تاریکی میں سچائی کی شمع روشن کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے سفاکانہ تشدد اور قتل کرتے ہیں اور دوسروں کو خوف و دہشت کا پیغام دیا جاتا ہے، یہی سچائی اب تک بلوچ بیان کرتے آرہے ہیں مگر اس پر کان دھرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ بالادست قوتیں بلوچستان کی حقیقی تصویر کو کسی بھی صورت پنجاب سمیت مختلف قوموں کے قوموں کے عوام کے سامنے لانے پر تیار نہیں ہیں، اُنہیں خدشہ ہے کہ حقائق تک رسائی فورسز خفیہ اداروں کی غیر انسانی غیر جمہوری بلوچ نسل کشی پالیسیوں پر اندرونی تنقید اور دباؤ کو جنم دے سکتی ہے جو جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ کرے گی کیونکہ پاکستان کا وہ سیاسی و صحافتی اور دانشورحلقہ جو دہشتگردانہ ریاستی دبا و کے باعث بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر لب کشائی سے گریزاں ہے اور دبے لفظوں اس پر ناپسندیدگی اور عدم اطمینان کا اظہار کررہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ میڈیا نے بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بگڑتے ہوئے حالات سے عوام کو آگاہ کرنے کا دباؤ بڑھا دیا ہے کیونکہ بلوچستان میں جاری بلوچ قومی تحریک میں روز بر روز آنے والی وسعت اور شدت زیادہ عرصہ تک پاکستانی میڈیا اور سیاسی و سماجی حلقوں کو اپنی آنکھیں بند رکھنے نہیں دے گی کیونکہ آگاہی کے ذرائع جدید ٹیکنالوجی نے کھول دیئے ہیں. بین الاقومی میڈیا شوشل میڈیا اور دیگر ذرائع حقائق سے آگاہی ایک مضبوط فورم ہے جسے روکنا اب کسی کے بس میں نہیں ہیں۔