ایک انسانی المیہ – میر بلوچ

296

ایک انسانی المیہ

میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک خاندان، ایک قبیلے یا ایک قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ تمام درد دل رکھنے والے انسانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ دنیا کے بیشتر اقوام اس مسئلے کا شکار ہیں، بلوچستان کو اگر لاپتہ افراد کا دھرتی کہا جائے توبےجا نہ ہوگا کیونکہ بلوچستان او خطے میں جبری گمشدگی حوالے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا پہلا کیس 1976 میں اسوقت سامنے آیا، جب بلوچ رہنما سردار عطاء اللہ مینگل کے فرزند اسد مینگل کو ذوالفقار علی بھٹو کے سول آمریت دور میں کراچی سے اغوا کیا گیا۔ اسکے بعد بھٹو نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اُس زمانے میں بھی سینکڑوں بلوچ لاپتہ کیئے گئے جبکہ مشرف کے دور آمریت میں بلوچستان میں آپریشن کا آغاز کیا گیا، تو جبری گمشدگیوں کا مسئلہ دوبارہ سر اُٹھانے لگا، مشرف سے لے کر تاحال ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا، لاپتہ افراد میں سینکڑوں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہےبلوچستان میں ایسا دن نہیں گذرتا کہ پاکستانی فوج سول آبادیوں پر آپریشن وبمباری نہ کرتا ہو آئے روز بلوچ علاقوں کے عوام پر طاقت و تشدد کا استعمال نہ کرتا ہو اور اپنے معمول کے مطابق بلوچ فرزند بلوچ سر زمین سے لاپتہ نہ ہوتے ہوں۔

اس وقت جبری گمشدگی کا سب سے زیادہ شکار بلوچستان ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔ ان میں بچے، بوڑھے مرد خواتین سب شامل ہیں۔ بلوچستان میں کوئی بھی نوجوان جوکسی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہو تو اسے فوراً لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ ریاست پاکستان نے پہلے پہل بلوچ عوام کو لاپتہ کر کے اپنے ٹارچر سیلوں میں اذیت دینے کے بعد چھوڑ دیا کرتے تھے لیکن2009 کے بعد اپنے پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے اغوا کے بعد سیاسی کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا شروع کردیا۔

بلوچ لاپتہ افراد کے اس اہم انسانی مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کے لیئے پاکستان مختلف حیلے بہانے اور حربے استعمال کر ریا ہے، ایک طرف جبری گمشدیوں کے مسئلے سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے. پاکستان کے انٹیلیجنس ادارے فوج اور ایف سی لوگوں کو اغوا کر کے لاپتہ کرنے سے انکاری ہے اور دوسری جانب سپریم کورٹ میں گذشتہ کئی سالوں سے سماعت جاری ہے اور حکومت نے ایک کمیشن بنایا ہے لیکن کمیشن اور کورٹ کی کارگردگی اس متعلق ناقص ہے۔

فوج اور انٹیلی جنس ادارے کورٹ و کمیشن کے فیصلوں اور احکامات کو کوئی اہمیت نہہں دیتے بلکہ کورٹ انٹیلیجنس اداروں کے ہاتھوں یرغمال نظر آتا ہے 2009 میں مسنگ پرسنز کے لواحقین نے نصراللہ بلوچ، ماماقدیر بلوچ اور فرزانہ مجید بلوچ کی سربراہی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نام سے ایک ہیومن راٹس تنظیم تشکیل دی گئی۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک موثر آواز بن کر ابھری۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی کوششوں، جدوجہد، طویل لانگ مارچ اور طویل بھوک ہڑتالی کیمپ سے لاپتہ افراد کا مسئلہ آج ایک انٹرنیشنل مسئلہ بن گیا ہے۔

آج بھی پاکستانی ٹارچر سیلوں میں بلوچ آزادی پسند تنظیم کے بہت سے لیڈر اور کارکن قید ہیں، جن میں سابقہ بی ایس او آزاد کے وائس چئیرمین زاکر مجید بلوچ جن کو 8 جون 2008 کو اغوا کر کے لاپتہ کیا گیا۔ جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں ہے، بی این ایم کے ڈاکٹر دین محمد بلوچ جو 2009 سے لاپتہ ہیں۔ محمد رمضان بلوچ اور بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ جن کو 18 مارچ 2014 کو وائس چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کے سامنے سے کوئٹہ سے لاپتہ کردیا گیا۔ انکی بازیابی کے لیئے بی ایس او آزاد کے مرکزی کمیٹی کے ممبر لطیف جوہر بلوچ نے کراچی پریس کلب کے سامنے طویل بھوک ہڑتالی کیمپ تنظیمی فیصلے کے مطابق ریکارڈ کیا لیکن زاہد بلوچ کا تا حال کوئی پتہ نہیں۔

بلوچستان سے لاپتہ ہونے والوں کے لواحقین کا یہی مطالبہ ہے کہ اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ کسی ایک فرد کے اغوا ہونے سے پورا خاندان ذہنی مرض کا شکار ہوجاتا ہے کہ وہ کس حال میں ہوگا زندہ بھی ہوگا کہ نہیں ایسے کئی گھر ہونگے، جو اپنے پیاروں کی راہ تکتے ہوئے اس دنیا سے چل بسے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی کو گرفتار کرنا ہے تو پہلے عدالت سے اجازت لیا جائے اور اگر کسی کو گرفتار کر لیا گیا تو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جائے لیکن ریاست پاکستان اقوام متحدہ کی اس چارٹر کی مکمل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بروقت اس اہم انسانی مسئلے کا نوٹس لیکر ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے، تو ایک بدترین انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔