افغان حکومت و طالبان سیزفائر کے تناظر میں
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
سیڑھی تو رکھی ہے، اس پر سب زینہ بہ زینہ چڑھ رہے ہیں۔ سب مصروف عمل پیسنہ و خون بہا رہے ہیں، محنت کررہے ہیں، قربانی دے رہیں، ہر ایک اپنی بساط کے مطابق شعوری یا لاشعوری، جذباتی یا مصلحت پسندی سے، کوئی ماحول و کیفیت کا شکار، کوئی خوف و موقع پرستی سے، کوئی خود غرضی، کوئی سستی، کوئی چستی، کوئی دھوکا، کوئی مجبوری اور کوئی لگن و مخلصی کے ساتھ ساتھ سیڑھی پرچڑھ رہے ہیں لیکن کیا صرف سیڑھی پر چڑھنا کافی ہے؟ یہ بھی دیکھنا اور غور کرنا ہے کہ سیڑھی کا آخر کہاں ٹکا ہوا ہے؟ یہ ذمہ داری کس کی ہے؟ قیادت کارکن یا بلوچ قوم کی؟
ہم تو گلا پھاڑ کر ہر جگہ کہتے ہیں کہ خطے کے موجودہ حالات انتہائی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے جارہے ہیں اور حالات کی تبدیلی کے اثرات ضرور بلوچ قومی تحریک اور جغرافیائی حوالے سے بلوچ قوم اور بلوچستان پر ضرور پڑینگے لیکن ہم نے بحیثیت قوم کبھی یہ سوچا ہے کہ تبدیلی کے اثرات منفی پڑینگے یا مثبت؟ عالمی شطرنج کی بساط بلوچ قوم کے حق میں پلٹے گی یا مخالفت میں؟
ایک جغرافیائی و معاشی تبدیلی تو 90 کی دہائی میں سوشلسٹ بلاک کے سرچشمے سوویت یونین کے شیرازہ بکھرنے کی صورت بھی روبہ عمل ہوا۔ وہ بھی ایک تبدیلی تھی، اس کے اثرات بلوچ تحریک پر کیا پڑے مثبت یا منفی؟ فائدہ ہوا یا نقصان؟
اس وقت بھی بحثیت قوم، بلوچ قیادت اور جہدکار معروضی و موضوعی حالات سے بے خبر مبالغہ و قیاس آرائیوں میں مصروف عمل بغیر کسی منصوبہ بندی اور طویل مدت پالیسی مرتب کرنے کے بے خبر، محض خوش فہیموں پر اکتفاء کیئے ہوئے، صرف انقلاب کے انتظار میں تھے، پھر سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد نتیجہ کیا ہوا؟
کیا آج ایک مرتبہ پھر وہی صورتحال پیش آنے کو نہیں ہے؟ یا پھر بلوچ قیادت اور جہدکاروں کے پاس تمام حالات اور تبدیلیوں کا ادراک رکھتےہوئے، کوئی بہترین حکمت عملی و منصوبہ بندی موجود ہے؟
روایتی طرز سیاست کی طرز میں لاحاصل بحث میں بہت دور نہیں جانا چاہتا، مثلاً امریکہ کا شمالی کوریا کے ساتھ سرد جنگ سے نکل کر سرد دوستی وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اپنے ارگرد کے صورتحال کے تبدیلیوں کا مختصر جائزہ لینے کی مختصر کوشش کرتا ہوں۔ یعنی اپنے ہمسایہ ملک افغانستان جو عالمی قوتوں کا ہمیشہ معاشی و قومی مفادات کی جنگ میں قربانی کا بکرا رہا ہے اور آج بھی ہے کو دیکھیں۔ افغانستان کی سیاسی و معاشی اور فوجی صورتحال کے ساتھ ساتھ افغانستان کی امن و امان اور جنگ سے لیکر تمام تر صورتحال کا بغور جائزہ لینے اور سمجھنے سے ہر کوئی ذی شعور عالمی طاقتوں کی کم از کم اور کچھ نہ کچھ حد تک عصر حاضر اور آنے والے وقت کے ارادوں اور عزائم کا صحیح عکاسی کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ بلوچ قیادت اور بلوچ جہدکار عیسائی پادریوں کی طرح اس بحثِ لاحاصل یا الجھن میں مبتلا نہ ہوں کہ حضرت عیسیٰ کا پیشاپ حلال ہے یا حرام ہے۔
پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت، افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کے ساتھ جنگ بندی اور2002 کے بعد طالبان کا پہلی بار جنگ بندی کرنا اور افغان فورسز سے بغل گیر ہوکر ان کو گلے لگانا، افغان فورسز اور طالبان کے ساتھ مشترکہ تقریب کا انعقاد اور چند ہفتے پہلے صدر اشرف غنی کی خصوصی دعوت پر پاکستانی آرمی کے سربراہ قمر باجوہ کا کابل آنا، اس سے پہلے بلوچستان میں آرمی کورکمانڈر کے متعدد بار چند مہینے کے دورانیے میں افغانستان کا دورہ کن مقصد کے تحت؟
آغا عبدالکریم سے لیکر تمام ادوار میں بلوچ قومی تحریک اور افغان حکومت اور ایران حکومت کی تاریخ پر نظر ڈالا جائے تو بے شک افغان قوم ایک حد تک ضرور بلوچ قوم کے ساتھ مشکل حالات میں ساتھ کھڑا رہا ہے۔ خاص طور پر اپنے سرزمین پر انسانی ہمدردی، ہمسایہ قوم اور برادرانہ تعلق کے بنیاد پر بلوچوں کو ضرور پناہ دی ہے لیکن جہاں قوموں کے اور اپنے سرزمین کے مفاد ہوں، وہاں دوسروں کا خیال آنا بہت مشکل ہوگا، یہ ہر قوم کی اپنی قومی حقیقی اور فطری حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔
اس مختصر و سادہ سے تجزیے اور تبصرے کا مقصد یہ ہے کہ کیا بلوچ قیادت اور بلوچ جہدکار سیڑھی پر چڑھنے کے ساتھ ساتھ کبھی یہ سوچتے ہیں کہ کل اگر زیادہ نہ سہی چھوٹی مقدار میں ہمدرد قوموں کی بلوچ قوم کے ساتھ اخلاقی انسانی سیاسی سپورٹ ان کی اپنی مفاد اور دشمنوں کے سازشوں اور عزائم کے بھینٹ چڑھ گیا، تو بلوچ قیادت اور جہدکاروں کا اگلا راستہ اور اگلا پلان کیا ہوگا؟ کیا اس ضمن میں کوئی نعم البدل منصوبہ طے ہے؟ اگر متبادل منصوبہ بندی اور ترتیب موجود ہے، پھر تحریک کیلئے یہ ایک نیک شگون عمل ہے، اگر نہیں تو پھر یہ ایک قومی اور تاریخی المیہ ہوگا۔
آج ذرا غور کریں، بلوچ قیادت سے لیکر جہدکاروں کی اولین ترجیحات کیا ہیں؟ سوچنے اور سمجھنے کا زوایہ کیا ہے؟ بلوچ سیاسی و مزاحمتی مجلسوں اور سرکلوں میں بحث مباحثوں کا معیار کیا ہے؟ کن کن چیزوں پر توجہ مرکوز ہے، کہاں پر توجہ اور دلچسپی قائم ہے؟
سوشل میڈیا، لائیک، کمنٹ، شیئر، پروفائل فوٹو، یورپی مظاہرے و سیاست یا بلوچستان پر؟ یا پھر قومی قوت کی تشکیل اور قومی جنگ پر؟ سوشل میڈیا سے لیکر عام سیاسی بحث مباثوں میں اکثر ایسی گفتگو ہوتی ہے، ایسی چیزیں قابل بحث ہوتے ہیں کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے، جیسے اب تحریک مکمل کامیاب ہوچکا ہے، بس فارغ وقت میں وقت پاسی کیلئے کچھ نہیں بطور لطیفہ وقت پاس کرنا ہے، آخر کیوں؟
اس وقت تک کیا پالیسی و حکمت عملی ہے؟ فرض کریں، کل خدانخواستہ اگر اس طرح ہوا؟ متبادل ہمارے پاس کیا ہے؟ پھر ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ یا صرف حالات کے رحم و کرم پر چلنا ہے؟ دنیا میں کونسا انقلاب یا آزادی کی تحریک حالات و واقعات کے رحم و کرم پر چل کر کامیابی حاصل کرچکا ہے؟
افراد ہو یا تحریک جب معروضی و موضوعی حالات سے ذرہ برابر بھی بے خبر ہوکر چلتے رہے، چاہے انہوں نے بے شمار قربانیاں کیوں نا دی ہو، محنت مخلصی کیوں نا اس میں شامل ہو، وہ زوال اور پسپائی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کرینگے۔ دنیا کی کمک، طاقت، عوام کی حمایت اور شمولیت کچھ نہیں۔
اس وقت ہماری بلوچ قومی جنگ جس اسٹیج تک پہنچ چکی ہے، جہاں اس پر سوچنا چاہیئے، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر سنجیدگی سے ایسے پلان اور منصوبے مرتب کرنا ہوگا تاکہ صرف آج نہیں بلکہ کل کے تمام ممکنہ چیلنجوں کے ساتھ آسانی سے نمٹا جائے۔ اس کا بہتر حل غیرضروی اور ضروری چیزوں کو پہلے جان کر غیر ضروری چیزوں کو سرے سے نظر انداز کرنا ہوگا اور ضروری تحریکی چیزوں پر مکمل توجہ دیکر موثر اور دیرپاء قومی پالیسی اپنانا ہوگا۔