آبیاری – علیزہ بلوچ

220

آبیاری

تحریر: علیزہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

ماہیکان تین سال کی تھی جب اس کے بابا اپنے شہری فرائض سرانجام دینے کے بعد پہاڑوں کا رخ کر لیا تھا۔ جب وہ شہر میں تھا تو اپنے کام سے فارغ ہوکر، ہر جمعے کی چھٹی پر جب وہ گھر آتے تھے تو بچوں کے چہرے جیسے کھل سے جاتے تھے اور کیوں نہ کِھلتے ہوں، بھلا دوستوں جیسے بابا کی صحبت کِسے نہیں پسند۔ اُن کے ساتھ کھیلنا، گُھمانے لے جانا، چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنا، ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرنا اور غلطی پر غصہ ہونے کے بجائے محبت اور شفقت سے سمجھانا انکی خاصیت تھی۔ مگر شاید ان کے نصیب میں باقی بچوں کی طرح ان کے بابا کی صحبت بہت مختصر لکھی تھی، کیونکہ خدا نے اسکے بابا کو پیدا ہی اس لیئے کیا تھا کہ وہ اپنے وطن اور اپنے قوم کی خدمت کر سکے۔

وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ اسے ایک دن پتہ چلا اس کے کچھ دوستوں کو اغواء کرکے غائب کیا گیا ہے اور ان میں سے ایک نے دشمن کے سامنے راز بھی افشاں کریئے ہیں۔ اسکا مطلب تھا، باقی دوستوں کا شہر سے نکل جانا اور اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے پہاڑوں کا رخ کرنا۔

یہ عشق بھی کیا عجیب چیز ہوتی ہے کہ جب یہ جس سے ہو جاتی ہے تو بس صرف وہی دِکھتا ہے، پھر اس سے آگے پیچھے کچھ نہیں دکھتا۔ آسان تو نہیں کہ ایک بوڑھے باپ کے کندھوں پہ اپنے بہنوں اور بیوی بچوں کا بوجھ ڈالنا وہ بھی ایسی عمر میں کہ جہاں اس کے بابا کو اسکی سب سے زیادہ ضرورت تھی، جہاں اسے اپنے بابا کا بازو بن کر انکی خدمت کرنا تھا، انہیں آرام کرنے کا موقع دینا تھا۔ مگر کہتے ہیں نا، عشق جنون ہے بس ایسی ہی جنونی عشق اُسے اپنے مادر وطن بلوچستان سے تھی کہ جس کے خمار میں اسے نہ بوڑھے بابا، نہ بے سہارا بچے اور نہ ہی بیوی اور بہنیں دِکھیں کہ بہنوں کا اکلوتا بھائی جو اُنکی کُل کائنات ہے، جسے وہ دنیا سے ہمیشہ چھپا کے رکھنا چاہتی تھیں کہ کہیں اسے ذرا سی خروش نہ آئے۔ آج وہی بھائی آخری بار ان سے رخصت ہورہا تھا، مگر وہ اس بات سے بالکل انجان کے وہ اسے آج آخری بار دیکھ اور چھو سکتے ہیں، اور وہ ہمیشہ کے لیئے عشق وطن میں ان کو چھوڑ کر جارہاہے۔

اسے ہمیشہ کی طرح خوشی خوشی رخصت کیا کہ اگلے ہفتے وہ پھر چھٹی پر ملنے آئے گا اور یوں وہ مادر وطن کی محبت میں سب سے باغی ہو کر ہمیشہ کے لیئے وطن پر اپنی زندگی، اپنے گھر، اپنے رشتوں کو قربان کر گیا اور کیوں نہ کرتا آخر اسے اپنے دوستوں کا مشن جو پورا کرنا تھا، ان کے کاروان کو آگے لے جانا تھا۔ جب سے اس تحریک کا حصہ بنا تھا، اسی دن سے اس نے خونی رشتوں کو نظریاتی رشتوں پر ہمیشہ کے لیئے قربان کر دیا تھا۔

وطن کی محبت اس کے دل میں بچپن سے تھی، مگر تب غلط درس کی وجہ سے وہ اپنا وطن ایک غلیظ قبضہ گیر ملک پاکستان کو سمجھتا تھا. جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا، عقل کی گرہیں کھلنے لگیں اور شعور پختہ ہوتا گیا. یوں وہ حقیقت سے آشنا ہو گیا اور آخر اسے اس کا مقصد سمجھ آگیا اور اسی طرح اس نے آرام کی زندگی کو خیرباد کہہ کر مادر وطن کو ایک غیر ملکی قبضے سے آزاد کرانے کی خاطر اپنے آپ کو، اپنی زندگی کو، وطن کی مٹی کا قرض سمجھ کر وطن پر مرمٹنے کے راستے چلا۔ غیر زبان کو خود پر مسلط دیکھ کر اسے غلامی کا احساس کسی طور قبول نہیں تھا، ایسے ہی وہ اس نفرت اور قبضہ گیریت کے خلاف وطن کے جانبازوں میں سے ایک جانباز بن کر اس عظیم تحریک کا حصہ بن گیا۔

آج ماہیکان 6 سال کی ہو چکی ہے، اسے تب سے بس یہی دلاسہ دیا جاتا ہے کہ بیٹا بابا آئیں گے آپ کے لیئے بہت ساری گڑیاں اور کھلونے لینے گئے ہیں۔ دیکھو یہ گڑیا بھی تو بابا نے بھیجی ہے اور بھی ایسی پیاری پیاری گڑیاں بھیجا کریں گے۔ مگر وہ ایک لمحہ خوش ہونے کے بعد دوبارہ سے افسردہ ہو کر کہتی، “نہیں پھپھو مجھے گڑیا نہیں بابا چاہیئے، میری دوست افشین کے بابا ہمیشہ اسے سکول لے کر آتے ہیں۔ میرے بابا کیوں نہیں آتے میں اپنے دوستوں کو بتاتی ہوں میرے بابا بہت اچھے ہیں، تو وہ مجھے یہ کیوں کہتے ہیں کہ میرے بابا دہشت گرد ہے سرمچار ہے۔ وہ اچھے نہیں ہیں، لوگوں کو مارتے ہیں، میری ان سے روز اسی بات پہ لڑائی ہوتی ہے اور وہ مجھے مارتے اور پنسل چھباتے ہیں۔ پھپھو یہ دہشت گرد کیا ہوتا ہے؟ سرمچار کیا برا انسان ہوتا ہے؟ میرے بابا تو سب کو بہت محبت کرتے ہیں ناں؟”

علیشبا اسے سمجھاتے ہوئے بولی “بیٹا جب کوئی انسان اپنے حق کے لیئے، سچائی کے لیئے ظالم سے لڑتا ہے، تو اسے دہشت گرد کہتے ہیں اور سرمچار ہمارے محافظ ہیں وہ ہماری حفاظت کے لیئے ہمارے دشمن سے لڑتے ہیں. اگر کوئی اپنی ہی چیز حاصل کرنے کے لیئے کسی سے لڑتا ہے، تو وہ غلط نہیں ہوتا برا نہیں ہوتا۔ اب اگر کوئی آپ سے آپکی گڑیا چھین لے تو آپ کیا کرو گی؟”

ماہیکان فوراً کہنے لگی “میں تو اسکا منہ نوچ لوں گی، یہ گڑیا تو میرے بابا نے میرے لیے لی ہے، میں اُس کا گلا دبا دوں گی اگر کسی نے ہاتھ بھی لگایا اسے.” علیشبا اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی “بس جس طرح آپ اپنی گڑیا سے محبت کرتی ہو اور چھیننے پر اتنا غصہ بھی، بالکل اسی طرح آپ کے بابا بھی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اگر کوئی اسے چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو آپکی طرح وہ بھی ان کا منہ نوچ لے گا۔”

پاس بیٹھا 8 سالہ ماہیکان کا بھائی مرید جو کہ ہوم ورک کرتے ہوئے، یہ سب سن رہا تھا تو سوال کرنے لگا “پھپھو یہ وطن کیا ہوتا ہے اور وطن سے محبت کیا ہوتی ہے؟” علیشبا پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی “بیٹا جس زمین پر انسان پیدا ہوتا ہے، اپنی زندگی کے رات اور دن گذارتا ہے، جہاں اس کے رشتے ناطے ہوتے ہیں، جہاں اس کے دوستوں، امی ابو، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے، وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتا ہے۔ وہاں کی گلی، وہاں کے پہاڑ، گھاٹیاں، چٹان، پانی، ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان بلکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں، جن کو وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ وہ کیسے بھول سکتا ہے اس سر زمین کو جس میں وہ اپنے باپ دادا، بھائی بہن اور دوست رشتہ دار کے ساتھ رہا ہو۔ وطن سے محبت ایک فطری عمل ہے، ہر انسان کو اپنے ملک سے فطرتاً محبت ہوتی ہے۔.

وطن کی سلامتی اسی میں ہے کہ اپنے لوگوں کے مال، جان، عزت اور خون کی حفاظت کی جائے۔ وطن کے مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے، جیسے کہ آپ کے بابا نے کی اور اپنے وطن کو غیر کی ظلم اور جبر سے بچانے کے لیئے ہر خطرناک سے خطرناک قدم اٹھانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔

جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں، انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا ہے اور اس کے بر عکس جو لوگ ملک کے لیئے قربانی دیتے ہیں، ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ رہتے ہیں۔”

وطن سے محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کی بقا کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور جب بھی وطن آواز دے تو سب کچھ چھوڑ کر وطن کی پکار پر لبیک کہنا چاہیئے کہ یہی تو وہ ماں ہے جو مرنے کے بعد بھی اپنے سینے میں آپ کو پناہ دیتی ہے، آپ کے بابا بھی اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اس کے ایک ایک ذرّے سے محبت کرتے ہیں. اپنے وطن کی ایک انچ زمین بھی کسی دوسرے ملک کو دینا گوارا نہیں کرتے۔ اس لیئے آج وہ ہم سے اتنے دور ہیں کہ وہ کسی قابض دشمن کے ناپاک قدموں کو اپنے سر زمین پر پڑنے سے روکے. جس طرح ان سے پہلے بہت سے نوجوانوں نے وطن کے لیئے قربانی دی اور بہت سے آپ کے بابا کے ساتھ ابھی بھی اس کاروان کے ساتھی ہیں، جو آپ لوگوں کی، آپ کے بعد آنے والوں کی حفاظت اور آزادی کے لیئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چل رہے ہیں۔”

مرید یہ سب غور سے سننے کے بعد کہتا ہے “پھپھو میں بھی پڑھ لکھ کر بڑا ہو کر بابا کے پاس جاؤنگا اور میں بھی اپنے وطن کی حفاظت کرونگا.” یہ سن کر علیشبا مسکرا کر مرید کو گلے سے لگا کر انشاءاللہ کہتی ہوئی اسے آگے کا ہوم ورک کرانے لگی۔