یوم آسروخ ۔ راشد حسین

176

یوم آسروخ

تحریر: راشد حسین

دی بلوچستان پوسٹ 

28 مئی کا دن جسے بلوچ قوم یوم آسروخ کے نام سے یاد کرتی ہے، جس دن ناپاک پنجابی فوج نے اپنے ہمسائے ملک کے خوف سے ایک بار پھر بلوچ سر زمین کو اپنے ناپاک عزائم کیلئے استعمال کیا اور بلوچ نسل کشی کی پالیسیوں کو ایک نیا رخ دیا۔ 28 مئی 1998 جب کوئٹہ سمیت مختلف علاقوں سے ناپاک فوجی قافلے چاغی پہنچے، جن میں اکثر کو اس بات کا علم نا تھا کہ ان کے وہاں ہونے کا مقصد معمول کا مشق نہیں بلکہ بلوچ سر زمین کے سینے اور بلوچ کے مستقبل کو جلانے کی غرض سے ہمیشہ کے لیئے آگ کے گولے نصب کرنا تھا۔

بلوچ کی تاریخ میں سیاہ حیثیت رکھنے والے اس دن یعنی 28 تاریخ کی اس دوپہر کا سیاہ ترین لمحہ 3 بج کر 15 منٹ جب ایک زوردار دھماکہ ہوا، جسکا مطلب تھا کہ ریاست پاکستان اپنی شیطانیت میں کامیاب ہو چکا تھا اور اسی وقت دہشت زدہ چاغی کے بلوچ عوام اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ زور دار دھماکے کی آواز، آسمان پر اڑتا غبار، ریتیلا طوفان اور زمین پر جھٹکوں کی شدت ہی انکی قسمت میں نہیں بلکہ اور بہت کچھ یہ ناپاک ریاست انکے نام کر چکا ہے، جسکے اثرات عنقریب دکھنے کو مل جائیں گے۔

ریاست پاکستان، جس کیلئے بلوچ ہمیشہ سے ناقابل قبول رہا ہے، جس نے بلوچ پر ظلم ڈہانے اور بلوچ نسل کشی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نا دیا ہے، نے ظلم کی انتہا کو ظاہر کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیلئے پنجاب سندھ اور پشتون زمینوں کو چھوڑ کر بلوچ سر زمین کا فیصلہ کیا، جو اس ریاست کا بلوچ پر غصے اور نفرت کا کھلم کھلا اظہار تھا۔ 28 مئی کے دن جب پاکستان خوشیاں منا کر یوم تکبیر مناتی ہے، بلوچ اس دن کو یوم سیاہ قرار دے کر یوم آسروخ مناتے ہیں۔

ایٹمی دھماکے جسکے اثرات سے دنیا ناگا ساکی و ہیروشیما کی حالت کو دیکھ کر واقف ہے۔ راسکوہ کے سائے تلے رہنے والے بھی ویسے ہی حالت سے دوچار ہوئے ہیں، جس حالت سے ہیروشیما و ناگا ساکی کے رہنے والے گذرے۔ یہاں پیدا ہونے ولے بچے تک کی قسمت میں معزوری لکھی گئی۔ کسی کا ہاتھ نہیں تو کسی کا کان، تو کسی کی آںکھ اور کچھ مردہ پیدا ہوئے۔ یہاں کا درجہ حرارت کچھ ہی وقت میں آسمان کو چھو گئی۔ بارشیں بند ہو گئے۔ زمین کی زرخیزی ختم ہو گئی، سر سبزعلاقے سوکھ گئے، مال مویشی بیمار ہونا، مرنا شروع ہوئے اور جب کچھ سالوں بعد ہلکی پھلکی بارشیں ہونا شروع ہوئیں، تو وہ بارشیں پانی کے بجائے زھریلی بارشیں تھیں۔ ہوا میں موجود زھریلے ذرات کی وجہ سے مختلف خطرناک قسم کی بیماریاں چاغی باسیوں کے حصے میں آئیں۔ آج بلوچستان میں معزور بچوں کا پیدا ہونا، انہی زہریلی گیسوں کے اثرات ہیں اور کینسر کی شرح میں جو اضافہ ہوا، وہ بھی کوئی قدرتی نہیں بلکہ انہی ایٹمی تابکاریوں کی وجہ سے ہے۔

ایک طرف پاکستان جس کے بقا کیلئے سر زمین بلوچستان ضروری ہے اور ایک طرف بلوچ قوم جن کیلئے بلوچ سر زمین ماں کی حیثیت رکھتی ہے، اس ناپاک قوم کیلئے بلوچ اپنی ماں کے ساتھ سودہ بازی کو ہر گز تیار نہیں۔ چاغی جہاں کی سر زمین کی معدنیات کو چرا کر پاکستان لا تعداد مال کما چکا ہے اور چاغی کے سینے کو چیر چیر کر زمین کی تہہ تک کی معدنی وسائل لوٹ چکا ہے، نے بلوچ مزاحمت کا جواب بھی اسی ایٹمی دھماکے سے دیا اور دنیا آنکھیں بند کر کے بلوچ پر ڈھائے اس ظلم کو دیکھتی رہی اور کچھ بے وقوف اس شیطان بمب کو جو دنیا کے لیئے خطرہ ہے، اسلامی بمب سمجھ کر تالیاں بجاتے رہے جن کا خمیازہ مستقبل میں انہیں بھی بھگتنا پڑیگا۔
بلوچ ہر سال کی طرح اس سال بھی 28 مئی کو یوم آسروخ کے طور پر منا کر بلوچ سر زمین پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور بلوچ قومی حقوق قومی آجوئی کا نعرہ بلند کرینگے، جس مقصد کیلئے مختلف ممالک میں احتجاجی مظاہرے،ریلیاں اور سیمینارز کا انعقاد کیئے جائینگے اور چونکہ بلوچ کے پاس ایسا کوئی میڈیا نہیں جسکی مدد سے بلوچ اپنی آواز دنیا تک پہنچائیں اس لئے تمام بلوچ آزادی پسند سیاسی تنظیمیں 28 مئی کو سوشل میڈیا میں #NoToPakistaniNukes کے ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے متحدہ کمپین چلائینگے۔