یومِ آسروک – محراب بلوچ

741

یومِ آسروک

محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

 

28 مئی کو پاکستان میں یومِ تشکر یا یومِ تکبیر مناتے ہیں، اس دن کو پاکستانی اپنی کامیابی سمجھ کر اس دن کو جشن مناتے ہیں۔ اس دن کو اہم ترین ایام میں سے ایک کے طور پر یاد کرتے ہیں کیونکہ پاکستان نے اسی دن ایٹمی آزمائش کرکے، دنیا کا ساتواں ایٹمی قوت کا مالک ملک بن کر دنیا کے سامنے اُبھر آیا، دنیا کے نقشے میں ایک ایٹمی طاقت کے نام سے نمودار ہواـ

پاکستانی اس بات پر اب تک افسردہ ہوکر افسوس کرتے ہیں کہ کاش 1971میں ہم ایٹمی طاقت بن پاتے، تو ہمارے 90 ہزار فوجیوں کو سرنڈر کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ ہم اپنے ایٹمی طاقت کے زریعے ہندوستان کو شکست دے سکتےـ

1974 کو بھارت ایٹمی تجربات کرکے ایک ایٹمی ملک بن گیا، یہ بات پاکستان پر ایک بم بن کرگرا کہ ہمارے دشمن نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا سراغ لگاکر ایک ایٹمی طاقت بن گیا ہےـ پاکستانی سائنس دانوں نے تگ و کرنا شروع کیا تاکہ وہ بھی ایک ایٹمی طاقت کے نام سے اپنے ملک کی پہچان کرائیں۔ ویسے تو ایٹمی طاقت بننا ایٹمی طاقت کی خواہش رکھنا، ہمیشہ سامراجوں کی ایک حوس رہی ہےـ

1974میں ذولفقارعلی بٹھو کی دورِ حکومت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان بھی ایٹم بم بنائے گا بعد ازاں 1983 میں پاکستانی سائنسدانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی سربراہی میں ایٹم بم بنانے کے تجربات شروع کیئےـ اس زمانے میں ایٹمی ہتھیار بنانا، عالمی سطح پر عام نہ تھی، دوسری جنگِ عظیم کے دوران 73 سال پہلے امریکہ نے سنہ6اگست 1945 کو جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے۔ پہلا جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا، جہاں ایک لاکھ چالیس ہزار آدم پر لقمہِ اجل بن گئے، دوسرا حملہ تین دن بعد یعنی 9اگست 1945 کو ناگاساکی میں کیا گیا، اسکے نتیجے میں 80 ہزار افراد لقمہِ اجل بن گئے اور بعد میں مرنے والوں کے تعداد تقریبا ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔ ایسے ایٹمی یعنی جوہری ہتھیاروں کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں۔ اب تک چاپانی دونوں متاثرہ شہروں میں اثرات باقی ہیں۔

اسی غیر انسانی عمل کے بارے میں آج تک بحث مباحث ہوتے ہیں، ایک طرف لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر انسانی عمل شمار ہوتا ہے تو دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ اس حملے کے نتیجے میں دنیا کے انسانوں کیلئے نیک شگون نتائج نکلے کیونکہ اس حملے کی بعد جنگ عظیم رک گئی اور دنیا میں ایٹم بم وغیرہ کا استعمال بند ہوگیا۔ دنیا میں اب جوھری ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔

عالی پابندیوں کے باجود پاکستاں نے ایٹمی ہتھیار بنائے، پھر 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے ضلعِ چاغی میں راسکو کے پہاڑیوں میں کوہِ قمبر کے دامن میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے چاغی کی نازُک دلبند کو ساہ کردیا گیا۔ چاغی کی دلبند کو چاک کردیا گیا۔ آج تک وہاں سے نیم مردہ معزور اپاہج انسانیں پیدا ہوتے ہیں، جانور بھی معزور پیدا ہوتے ہیں، حتٰی کہ وہاں کے سر سبز جنگل بھی ویران ہورہے ہیں۔ وہاں کوئی گھاس پوس تک نہیں اُگ رہیـ

پاکستان نے اپنی بے لگامی دنیا کو دِکھا کر، اپنی شیطانی عمل کی نشاندہی کی، اپنی اندھی طاقت کی بدمستی دنیا کو دکھا دی ـ رہاستِ پاکستان کے بے لگام سیاست دان و حکمران اس بات سے اچھی طرح واقف تھے، یہ عمل انسانی اقدار کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ یہ عمل انسانی زندگیوں کے بر خلاف ہے۔

پاکستان نے اچھی طرح سوچ سمجھ کے اس عمل پر عمل کرکے دکھایا، یعنی اگر کل کو بلوچستان آزاد ہوتا ہے تو اسے پہلے سے ہی دہشت زدہ بنایا جائے۔ بلوچستان کو سامراجی استحصالی لوٹ و کھسوٹ کے ساتھ ویران و بنجر بنانا پاکستان کے مفادات میں ہےـ

ایٹمی طاقت کی جہاں آزمائش کی جاتی ہے، وہاں قدرتی نظام پر بھی اثر پڑتا ہے، موسم میں ردوبدل آتا ہے گرمی، سردی، بارش ہوا وغیرہ بدل جاتے ہیں کیونکہ اب تگ چاغی میں بارش نہ ہونے کے برابر ہے موسم زیادہ گرم و خشک رہنے لگا ہے۔ پانی بھی زیر زمین نیچے چلاگیا ہےـ

چاغی کے لوگ سونا، چاندی، تانبہ، یورینیم، کرومائیٹ وغیرہ سے پہلے ہی کوئی استفادہ نہیں کرسکتے تھے، نا امید تھے۔ پھر بھی بارشوں سے اپنا کاروبارِ زندگی چلاتے اور معاش کا بندوبست کرتے تھے۔ اپنی مدد آپ کھیتی باڑی زمینداری کرتے تھے۔ دو پہروں کے کھانے کا بندوبست کرلیتے تھے۔ کوئی معذور کم از کم پیدا نا ہوتا۔

بلوچستان کا امیر ضلع چاغی بہت سے معدنیات سے مالا مال ہے، سب معدنیات سے محروم وہاں کے باسی قدرتی جڑی بوٹیوں پر گذر بسر کرتے تھے، جب وہاں قدرتی بارش ہوتا، تو قدرتی جڑی بوٹی اُگتے تھے، مثلا ڑڑوک، مارموتک، گیشنچ، مورپوژو وغیرہ ان جڑی بوٹیوں کی بڑی مانگ تھی۔ بازاروں میں چاغی کے باسی قدرتی جڑی بوٹیوں کو آزادانہ طورپر فروخت کرتے تھے۔ چاغی کے معدنیات سے محروم لاچار امیروں کو جڑی بوٹیوں پر اختیار آسانی سے تھاـ غریبوں کیلئے یہ بھی ایک زریعہ معاش سے کم نہیں تھا انہیں سے لوگ گذر بسر کرتے تھے۔ اب چاغی کے باسی اس نعمت سے بھی محروم ہوچکے ہیں ـ

ان انسانی سنگین مسائل کا ذمہ دار پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سردار اختر مینگل بھی ہے۔ اسی دوران بلوچستان کی وزیر اعلیٰ اختر مینگل تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نااہل نواز شریف تھے، ایٹمی تجربات کے بعد سردار اختر مینگل، نواز شریف کا گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے چاغی پہنچے۔ ہمیں افسوس ہے کہ چاغی کو اس حالت میں دیکھ کر سردار اختر مینگل نے یہ وعدہ کیا کہ چاغی کے متاثرہ علاقے کے لوگوں کو تاوان دیا جائیگا، جو آج پورا نا ہوسکا۔

ان ایٹمی دھماکوں کی اثرات صرف چاغی ہی نہیں بلکہ نوشکی، خاران، پنجگور اور دوسرے بہت سے علاقوں تک پھیل چکی ہیں۔ آج تک معزور و اپاہج لوگ راغے، بیسمہ کے ساتھ ساتھ دوسرے علاقوں تک پیدا ہورہے ہیں۔ یہ اثرات بھی انہی ایٹمی دھماکوں کے ہیں ـ

چاغی کی فرزند چاغی کو دیکھر خون کی آنسو روتے ہیں، اس درد کا احساس پوری بلوچ قوم کو ہے۔ اسلیئے اس دن کے مناسبت سے بلوچ عوام یومِ آسروک اور یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ چاغی کے باسی افسردگی سے پاکستانی حکمرانوں کو بد دعائیں دیتے ہیں ـ

اتنا درد نہیں ہوتا غیروں کی دشمنی سے لیکن دوستوں کا درد دل میں ہمیشہ ماتم کرتا رہتا ہے، پنجابی تو ازل سے بلوچ قوم کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ زیادہ درد سردار اختر مینگل کا ہوتا ہے، اختر مینگل چاغی کا بیٹا ہے، چاغی کا فرزند ہے۔ سردار اختر مینگل نے اپنی ماں کو زر و مال کی لالچ میں آکر سودا کیا، سردار اختر مینگل کو بلوچ تاریخ میں تاریخ دان و مورخ قومی مجرم ثابت کرکے لکھیں گے۔ سردار اختر مینگل کو بلوچ ایک مجرم کی حیثیت سے یاد کریں گے ـ