کشمیری نوجوان تشدد کا راستہ چھوڑ دیں، نریندر مودی

141

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کشمیری نوجوانوں سے جو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں، اپیل کی ہے کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر امن اور عزت کی زندگی گزاریں اور بھارت میں جاری تعمیر و ترقی کا حصہ بن جائیں۔

انہوں نے، پاکستان کا نام لئے بغیر، کہا کہ ”جو ملک نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں برسوں سے گڑ بڑ پیدا کر رہا ہے اور اس کے نوجوانوں کو بھٹکا رہا ہے وہ اب خود بکھرنے لگا ہے”۔

بھارتی وزیرِ اعظم ہفتے کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک روزہ دورے پر ہیں جس کے دوران انہوں نے سری نگر، جموں اور لیہہ میں کئی تعمیراتی منصوبوں کا افتتاح کیا یا ان کے لئے سنگ بنیاد رکھا اور ایک زرعی یونیورسٹی کے جلسہء تقسیمِ اسناد سے خطاب کیا ہے۔

ان کے دورے کے موقعے پر مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں ایک عام احتجاجی ہڑتال کی جا رہی ہے۔ ہڑتال کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد، ‘مشترکہ مزاحمتی قیادت’ نے کی تھی۔ اتحاد میں شامل لیڈروں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے یا پھر پولیس انہیں پکڑ کر لے گئی ہے۔

سرمائی صدر مقام سری نگر کے کئی علاقوں میں ہفتے کی صبح سے کرفیو نافذ ہے اور مسلح پولیس اور نیم فوجی دستے سنسان سڑکوں پر گشت لگا رہے ہیں۔ انتظامیہ نے تمام تعلیمی اداروں اور ریل سروسز کو مکمل اور انٹرنیٹ سہولیات کو جزوی طور پر بند کردیا ہے۔

سری نگر کے تاریخی مرکزی مقام لال چوک کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے۔ ‘مشترکہ مزاحمتی اتحاد’ نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ بھارتی وزیرِ اعظم کے دورے کے موقعے پر، بقول اُن کے، ”لال چوک پہنچ کر دنیا کو یہ باور کرائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں”۔

اتحاد میں شامل ایک لیڈر اور سرکردہ مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کا محاصرہ توڑ کر اپنی رہائش گاہ سے باہر آکر لال چوک کی طرف جانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ ریاستی اسمبلی کے آزاد رُکن اور عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر رشید اور ان کے ساتھیوں کو ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے ہاتھوں میں گالی جھنڈیاں لیکر نریندر مودی کے دورے کے خلاف نعرے لگائے۔

سرینگر کی شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کنارے پر واقع ایک کنونشن ہال میں غیر معمولی حفاظتی انتظامات کے تحت منعقد کی گئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا کہ ”وقت آچکا ہے”، جب ان کے بقول،”راستے سے بھٹکے کشمیری نوجوانوں کو اپنے گھروں کو لوٹنا چاہیے”۔

انہوں نے کہا کہ ”اُن بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی طرف سے پھینکا گیا ایک ایک پتھر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے لوگوں کو دلوں اور دماغوں کو چوٹ پہنچا رہا ہے”۔

انہوں نے کہا کہ ”کوئی وجہ نہیں کہ کشمیری نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے نہ بڑھیں اور اپنا اور اپنے والدین کا نام روشن کریں۔ لیکن، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے امن کے راستے پر گامزن ہوجائیں”۔

تاہم، بھارتی وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ انہیں ”اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ کشمیر میں درپیش مسائل کا حل گولی یا گالی سے نہیں بلکہ لوگوں کو گلے لگانے سے ڈھونڈا جا سکتا ہے”۔ اس سلسلے میں انہوں نے 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقعے پر دِلّی کے لال قلعے سے کی گئی اپنی تقریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ ”یہ بھی جانتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کو دھوکے میں رکھا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے وہ عناصر ہیں”، جو ان کے بقول، ”امن کے دشمن ہیں”۔

انہوں نے کہا کہ ”بھارتی حکومت نے کشمیر پر ایک مذاکرات کار مقرر کیا ہے جو لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، تاکہ کشمیر کو مشکلات کے اس دور سے باہر نکالا جاسکے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام ملک جنہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا اب پچھتا رہے ہیں اور پیدا شدہ صورتِ حال سے باہر آکر اپنے اپنے لوگوں کو بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ”کشمیر بہت جلد ان نامسائد حالات سے باہر آئے گا جن کا اسے گزشتہ کئی دہائیوں سے سامنا ہے” اور “یہ ایک مرتبہ پھر بھارت کے پُر امن اور خوشحال تاج کے طور پر اُبھرے گا”۔