کامریڈ زہرہ عرف شیرین – سفرخان

600

کامریڈ زہرہ عرف شیرین

تحریر: سفرخان

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم 

بی ایس او کو بلوچ قومی تحریکِ آزادی میں اہم مقام حاصل ہے، بی ایس او کے وجود سے لیکر آج تک تنظیم سے ہزاروں ایسے باشعور کارکن پید ا ہوئے ہیں اور پیدا ہورہے ہیں، جنہوں نے خود کو عظیم مقصد کے لیئے وقف کردیا ہے، جس کے بدولت بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد اور بلوچ سیاست کےلیئے بی ایس او کا درجہ بہت اہم ہے، کیونکہ بی ایس او ایک کیڈر خیز تنظیم ہے، جو کبھی ریا ستی جبر کے سامنے سر تسیلم خم نہیں ہوا بلکہ وہ نوجوانوں میں آگا ہی اور شعور کے چراغ کو روشن کرتے ہوئے آیا ہے۔

آج بی ایس او کئ سینکڑوں کا رکن جو پاکستانی ریاستی عتاب کا شکار ہیں، جو عقوبت خانوں میں اذیت برداشت کر رہے ہیں، یہا ں انکی لاشیں ملی ہیں، اس کے باوجود بھی نوجوانو ں میں احساس کی کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ شعور کے ساتھ اپنے کاروان کو آگے لےجاتے رہے ہیں لیکن ریاستی جبر میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ قبضہ گیر پاکستان اور نام نہاد پارلیمنٹ پرستوں نے پوری طاقت کے ساتھ بی ایس او آزاد جیسے پرامن تنظیم کو ختم کرنے کےلئے کیا کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ جب بھی، جہاں بھی ایک باشعور سیاسی کارکن نظر آیا ہے، ریاست اُسے اٹھا کر غا ئب کردیتا ہے، جس طرح کہ ہم سب کو معلوم ہے، اس وقت بی ایس او کے سابقہ چیئرمین زاھد بلوچ، سابقہ وائس چیئرمین ذاکر مجید، سیکریٹری جنرل عزت بلوچ ، انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبر ان حسام بلوچ ، نصیر بلوچ ، زونل رہنما آ فتاب بلوچ ،ارشاد بلوچ ،سمیع مینگل ،مشتاق بلوچ سمیت بہت سے کارکنان پا کستان کے اذیت گاہو ں میں بند ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ خوں آشامیاں بی ایس او کے کاروان کو روک نہیں سکے ہیں۔ اس شعورکے بدولت آج ہرگھر میں یہ خواہش جاگ اُٹھی ہے کہ وہ بی ایس او کے عظیم کاروان میں ہمسفر رہے۔

بلوچ قومی آزادی کے کارواں میں شامل ہر سیاسی کارکن یہ جانتا ہے کہ پاکستانی ریاست بلوچ سرزمین پر قابض ہے، بلوچ ساحل وسائل کی لو ٹ مار جاری ہے، ریاست کو بلوچ نہیں بلکہ اُس کی سرزمیں سے غرض ہے، تاکہ جسکی وہ وسائل لوٹ سکے، بلوچ سرزمین کی حفاظت کےلیئے مردوزن کی تفرق نہیں بلکہ ہرایک اپنا اپنا کردار ادا کررہا ہے، جس طر ح شاہناز بی بی، مصعوم بختی بی بی، گلناز بلوچ اور حلیمہ بی بی سمیت بہت سی بلوچ خواتین تحر یک آزادی کے راہ میں امر ہوگئیں۔

انہی باشعور بلوچ خواتین کی فہرست میں ایک نمایاں نام بی ایس او آزاد مند زون کی سینئر نائب صدر زہر ہ عر ف شیریں کا ہے، شیرین اور اُنکے بڑے بھائی عطاءاللہ بلوچ دوران سفر ایک ایکسڈنٹ میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے، یہ واقعہ انتہائی دل خراش ہے، اس المناک حادثے میں ہم سے ہمارے مستقبل کے ایک معمار، ایک لیڈر ہمیشہ کےلیئے جدا ہوگئے، لیکن انکی سوچ و فکر اور شعوری پختگی کی مثال ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہے گی، ہمیں اس بات کا ضرور بے حد افسوس ہے کہ ایک ایسی کارکن، جو ان حالات میں ہم سے چلی گئی، جب وہ ان کٹھن حالات میں بھی بی ایس او آزادکے سوچ و فکر کو ہر نوجوان تک پہنچاتی تھی، وہ مند کی اُس مردم خیز زمین پر پیدا ہوئی تھی، جہاں سے شہید غلام محمد، شیرمحمد، ملا فاضل، شہید دلوش، ملا قاسم سمیت ہز اروں ایسے لو گ پیدا ہوئے جن کی نام سے ہر بلوچ کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔

زہرہ عرفِ شیرین کے ایکسڈنٹ کے بعد جب ہمارا اپنے دوستوں سے رابطہ ہوا تو، ہر کسی کے باتوں میں صاف صاف زہرہ شیرین کی جھلک نظر آرہی تھی۔

بس ہمیں یہی لگا کہ زہرہ شیرین نے اپنی انقلابی و سیاسی سوچ اور نظریے کو ہر ایک کارکن کے زہن میں پروان چڑھایا ہے۔ شہید زہرہ شیرین نہ ٹوٹنے والا سیاسی کارکن تھا، مستقبل کی ایک امید کی کرن جو آگے چل کر پورے قوم کو منزل مقصود تک لے کر جانے کی ٹھان چکی تھی، پر وائے قسمت۔”

شہید زہرہ شیرین نے ایک مضبوط چٹّان کی طرح دشمن کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا، وہ انتہائی سخت حالات کے باوجود بھی تنظیم کے طر یقہ کار استعمال کرتے ہوئے اپنا پیغام دوسروں تک پہنچاتی، جو ریاست جبر سے کبھی خو ف زدہ نہیں ہوئی تھی بلکہ اپنے کاروان کو اپنی زندگی سمجھتی تھی، جو بی ایس او میں طلبا وطالبا ت کو شامل کرنے میں اپنے آبائی گاﺅ ں اور پورے مند میں اہم کر دار ادا کررہی تھی اور اب زہرہ شیرین بلوچ، طلبا و طالبات سمیت بلوچ خو اتین اور بلوچ نوجوانوں کیلئے زندہ مثال بن کر کھڑی رہی، جو دوران سفر گاڑی کے حادثہ کی وجہ سے ہمیشہ کےلیئے ہم سے جد ا ہوگئے اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ شہادت بھی نوش کرگئے۔

ہم عہد کرتے ہیں کہ زہرہ شیرین کے انقلابی نظریے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، جدوجہد کرکے، بلوچ طلباء و طالبات اور ہر بلوچ نوجوان کو قبضہ گیر پاکستان کی ظلم و بربریت سے آگاہ کریں گے اور بلوچستان کی مکمل آزادی تک اپنا جد و جہد جاری رکھیں گے۔