کاش! بلوچستان میں کسی بہن کا بھائی نہ ہوتا – بیبرگ بلوچ

390

کاش! بلوچستان میں کسی بہن کا بھائی نہ ہوتا

بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

“عزیز لوگوں کہاں گئے ہو
اداس کرکے حیات میری”
“کتنے آنسو بہائے ہیں میں نے تیرے لیئے….
تیری یاد مجھے روز تڑپا تڑپا کہ مار رہی ہے…
تیرے یاد میں تیری ماں ایک لاش بن چکی ہے ۔۔۔۔ نگاہوں سے نابینا ہوچکی ہے
تیری ماں بے سہارا ہے۔…
اپنے بھائی کو میں نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا….
میرے بھائی کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بلوچ ہے اور بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے.لاپتہ افراد کے بہنوں کی باتیں ان درد بھرے الفاظوں کو، آنکھوں سے چھلکتے ہوئے آنسوؤں کو پھر بھی آپ پڑھ نہ پائے تو آپ جاہل ہو۔ خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی۔ بلوچستان ہی وہ واحد خطہ ہے، جہاں مائیں بیٹی پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں اور بیٹا پیدا ہونے پر ماتم کیا جاتا ہے، گھر میں جیسے ہی بیٹا پیدا ہو ماؤں اور بہنوں کی شامت آجاتی ہے۔ یہ اس لیئے نہیں کہ بلوچستان جیسے خطے میں عورتوں کے حوالے سے یا ان کے حقوق کے حوالے سے تبدیلی آئی ہے، بلکہ بیٹی پیدا ہونے پر مائیں اس لیئے خوشی مناتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے، بیٹوں کی عمر طویل نہیں ہوتی۔

بقول جنرل شیروف “جو بندہ جس دھرتی پہ رہتا ہے، وہاں کھاتا پیتا ہے اور وہ پھر بھی اس دھرتی سے پیار نہیں کرے، تو وہ احسان فراموش اور غدارہے۔” دھرتی سے اسی پیار کے خوف، کہ بیٹا بڑا ہو کر قلم و کتاب سے دوستی شروع کردے گا اور خلائی مخلوق کے ہاتھوں ہمارا بیٹا جب اٹھ جائیگا تو پھر اس کو ڈھونڈنے نکلنے والی یہی بہن ہو گی۔

ایک بد بختی یہ بھی ہے کہ بلوچوں کی یہ دھرتی اپنے جغرافیائی حالات اور قدرتی وسائل کے باعث مسلسل زیر عتاب رہی ہے، فی الوقت یہ دونوں خوبیاں بلوچوں کیلئے عذاب بن چکی ہیں اور ماؤں کے بیٹوں کو، بہنوں کے بھائیوں کو نگل رہی ہے۔ بلوچوں کی قومی مزاحمتی تحریک میں نہ جانے کتنے بہنوں کے بھائیوں نے اپنی جانیں مادر وطن کے لیئے قربان کردیں اور نہ جانے کتنے زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ جن کی یاد میں بہنیں یہی کہتی ہیں.

“چلنا تھا ہم نے ساتھ میں،تم کیوں بچھڑ گئے؟
اس بے ارمان رات میں ،تم کیوں بچھڑ گئے ؟
رکھے گا سر پہ ہاتھ بھلا کون اب مرے
سر ہے مرے ہی ہاتھ میں تم کیوں بچھڑ گئے ؟”
نوشین قمبرانی

خواہ بہت سے لوگوں کو یقین ہو چکا ہے کہ ان کے عزیز، ان کے بھائی زندہ نہ رہے ہونگے. اس یقین کے باوجود انہوں نے ان کی واپسی کی امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے، جو کسی یقین کا سہارا بننے کی بجائے گم ہونے والوں کے عزیزوں کو روز مارتا ہے اور روز زندہ کرتا ہے اور ہر پل انہیں مارنے کیلئے پھر سے زندگی بخش دیتا ہے۔

یہ بہنیں امید کا دامن چھوڑیں بھی تو کیسے چھوڑیں ؟ وہ جو ان بہنوں کیلئے چارہ سازبھی تھے، ہمراہ بھی، ہمراز بھی، آس بھی اور سہارا بھی، وہ جنہوں نے جانے سے پہلے اپنی بہنوں کو الوداع بھی نہیں کیا۔ لاپتہ ہو جانے والے زندہ رہتے ہیں یا نہیں مگر ان سے محبت کرنے والے، ان کے واپسی کے انتظار میں باربار مرتے رہتے ہیں. انہیں یہ امید ستاتی رہتی ہے کہ کسی لمحے وہ لاپتہ شخص اچانک ان کے سامنے آجائے گا۔

جن سے محبت ہو یا جس بھائی کو وہ اپنے گھر کا سہارا سمجھتے ہوں، پھر یوں اچانک ان کا لاپتہ ہو جانا اور پھر بھائیوں سے یہی بہنیں، پریس کلبوں کے سامنے، گونگے اور بہرے عدالتوں کے سامنے، اندھے اور بے حس انسانی حقوق کے کارکنوں کو یا پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں اپنے پیارے بھائیوں کے تصاویر اٹھا کر رو رو کر یہ کہہ رہے ہوں، خدارا میرے بھائی کو منظر عام پر لاؤ، بعد میں اس کو جو بھی سزا دو گے ہمیں قبول ہے، لیکن ہر جگہ بھائیوں کے بجائے مایوسی اور نا امیدی انکے جھولی میں گرجاتی ہےپھر ہم یہی کہیں گے.

کاش! بلوچستان میں کسی بہن کا بھائی نہ ہوتا.