پنجاب : ایک ضلع میں خواتین کے خلاف 1500 سے زائد واقعات رونما ہوئیں

234

پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے قائم مرکز میں گذشتہ ایک سال کے دوران خواتین پر تشدد اور دیگر نوعیت کے 1500 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔

اس مرکز کی سربراہ پولیس افسر شاہدہ نسرین نے کہا کہ خواتین کے خلاف رونما ہونے والے یہ تمام واقعات وہ ہیں جو صرف ضلع ملتان کے مختلف علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر واقعات میں خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جبکہ تقریباً 50 کے قریب خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے تحفظ نسواں کے قانون کے تحت گذ شتہ سال ملتان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ مرکز قائم کیا تھا تاکہ معاشرے میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی داد رسی ہو سکے۔

پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں حقوق نسواں کمیشن کی سربراہ فوزیہ وقار کا کہنا ہے کہ ایسے مرکز صوبے کے دیگر شہروں میں بھی قائم کیے جائیں گے ۔

 انہوں نے کہا کہ اگرچہ حالیہ سالوں میں خواتین کے تحفظ اور معاشرے میں ان کی مشکلات کے ازلے کے لیے ناصرف کئی قوانین وضع کیے گئے ہیں بلکہ انتظامی سطح پر بھی موثر اقدامات کیے گئے۔

تاہم انہوں نے کہا خواتین سے متعلق فرسودہ سوچ کو تبدیل کرنا ایک اہم چیلنج ہے۔

” خواتین سے متعلق منفی رویے سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت کمزور اور مظلوم ہے اور اس کو دبانے کے لیے تشدد کا سہارا لینا مشکل نہیں ہے۔ عورت معاشی طور پر بھی کمزور ہوتی ہے اور پیسے مرد کے پاس زیادہ ہوتے ہیں اس لیے انھیں قانونی معاملات میں بھی عورت پر برتری حاصل ہوتی ہے۔”

تاہم انہوں نے کہا کہ اب پنجاب حکومت نے عورتوں کی ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے خواتین سے متعلق صنفی جرائم کی سماعت کے لیے لاہور میں ایک خصوصی عدالت بھی قائم کی ہے۔

دوسری طرف سندھ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی سربراہ ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین پر موثر عمل درآمد ضروری ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذ شتہ سال صرف پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد کے آٹھ ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے جبکہ غیرت کے نام پرلگ بھگ آٹھ سو سے زائد خواتین کو قتل کر دیا گیا۔

انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق2017ء میں پاکستان بھر میں خواتین کے خلاف رپورٹ ہونے والے واقعات اصل تعداد سے بہت کم تھے۔