امریکہ نے پاکستان میں شہریوں کو حاصل مذہبی آزادی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تنظیموں سے وابستہ عناصر بدستور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور حکومت ان کے خلاف قابلِ ذکر کارروائی میں ناکام رہی ہے۔
یہ بات منگل کو امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے جاری کی جانے والی دنیا میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال سے متعلق سالانہ رپورٹ میں کہی گئی ہے جس کا اجرا وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین میں شہریوں کے مذہبی آزادی کے حق کو یقینی بنائے جانے کے باوجود مذہبی اقلیتیں مہلک حملوں اور مبینہ امتیازی سلوک کا شکار چلی آ رہی ہیں۔
رپورٹ میں پاکستان میں رائج توہینِ مذہب کے قانون کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس قانون کو استعمال میں لاتے ہوئے کم از کم 50 لوگوں کو جیل بھیجا گیا اور گزشتہ سال 17 لوگوں کے خلاف دس نئے مقدمات قائم کیے گئے۔
یہ اعدادوشمار پاکستان کی سماجی تنظیموں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر فراہم کیے گئے۔
رپورٹ میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہینِ مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے طالبِ علم مشال خان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بعد ازاں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مشال پر یہ الزام غلط تھا۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے اپنی رپورٹ میں گزشتہ سال مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں اہلِ تشیع، ہزارہ برادری اور احمدیوں پر مہلک حملوں کے علاوہ صوفی درگاہوں پر ہونے والے حملوں کا بھی ذکر کیا ہے۔
رپورٹ میں جن واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں سندھ میں لعل شہباز قلندر کے مزار، بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں ایک مزار اور کوئٹہ میں ایک گرجا گھر پر مہلک دہشت گرد حملوں کے واقعات شامل ہیں۔
گزشتہ سال 16 فروری کو سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش بم دھماکے میں کم ازکم 88 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش (خراسان) نے قبول کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق جنوری، مارچ اور جون میں دہشت گرد گروپوں نے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں شیعہ اکثریتی علاقے پارا چنار میں مہلک حملے کیے جن میں کم از کم 115 افراد ہلاک اور 400 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔
دسمبر میں کوئٹہ کے ایک گرجا گھر پر حملے میں نو افراد ہلاک اور تقریباً 60 زخمی ہوئے اور اس کی ذمہ داری بھی داعش خراسان نے قبول کی۔
مزید برآں کالعدم تنظیموں کی طرف سے شیعہ ہزارہ برادری اور احمدیوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کو بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال بھی احمدیہ برادری سے متعلق نفرت و اشتعال انگیز بیانات سامنے آتے رہے۔
رپورٹ کے مطابق حکام کی طرف سے بھی احمدیہ مخالف بیانیہ پیش کیے جانے کی وجہ سے اس برادری کے خلاف تشدد کو ہوا ملی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف وضع کردہ ‘قومی لائحۂ عمل’ (نیشنل ایکشن پلان) پر گزشتہ سال بھی کام جاری رکھا جس میں فرقہ وارانہ اشتعال انگیز تقاریر اور انتہا پسندی کو روکنے کے ساتھ ساتھ فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں۔ تاہم سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا۔
رپورٹ میں غیر مسلم خصوصاً ہندوؤں کی زبردستی تبدیلیٔ مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب کہ ہندو میرج ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد اس مذہبی اقلیت کو خانگی حقوق کی پاسداری کو مزید یقینی بنایا گیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کا کہنا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کی طرف سے ان کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور عدم تحفظ سے نمٹنے میں حکام کے ناکافی اور تسلی بخش اقدام کے نہ ہونے کا شکوہ کیا جاتا رہا۔
رپورٹ کے مطابق سال بھر امریکی عہدیداران پاکستان میں متعلقہ وزیروں، حکومتی اراکین، وکلا اور سماجی و مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں اور مشاورت کرتے رہے جن میں فرقہ وارانہ تشدد سے نمٹنے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی یقین دہانی اور توہینِ مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ سال بھر ہونے والے ایسے واقعات کی تواتر سے شدید مذمت کرتا رہا اور 1998ء کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے ایکٹ کے تحت دسمبر 2017ء میں وزیرِ خارجہ نے پاکستان کو اس خصوصی فہرست میں شامل بھی کیا جس میں وہ ممالک شامل ہیں جو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث یا اس کا شکار ہیں۔
پاکستان کی طرف سے فوری طور پر اس تازہ رپورٹ پر کوئی باضابطہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا لیکن حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ وہ ملک میں آباد تمام مذاہب کے لوگوں کے مذہبی عقائد کی آزادی کی پاسداری کے عزم پر قائم ہے اور اس حق کی خلاف ورزی پر قانون حرکت میں آتا ہے۔