امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کانگریس کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان میں امریکی حکام کے ساتھ برا سلوک کیا جارہا جبکہ 2018 میں اب تک واشنگٹن نے پاکستان کو بہت کم فنڈز دیے جو آئندہ برس مزید کم ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امریکی حکام کے ساتھ برا سلوک رکھنے کا معاملہ امریکا کی پارلیمنٹ میں عوامی سماعت کے معاملے کے دوران سامنے آیا، جہاں خارجہ امور کمیٹی کی جانب سے اس بات کا اشارہ دیا گیا کہ اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات تقریباً اپنے اختتام تک پہنچ چکے ہیں اور پاکستان اب ایک مخالف کے طور پر پیش آرہا۔
اس دوران مائیک پومپیو نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے آئندہ مالی سال کے بجٹ مسودے پر بحث کے دوران کہا کہ ’ہمارے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران کے ساتھ برا سلوک روا رکھا جارہا ہے جبکہ سفارتخانوں، قونصل خانوں اور دیگر مقامات پر کام کرنے والوں کے ساتھ پاکستانی حکومت کا رویہ بھی ٹھیک نہیں‘۔
ایوان میں بحث کے دوران سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس کے مقابلے میں 2018 میں اب تک پاکستان کو بہت کم فنڈز جاری کیے ہیں جبکہ باقی رہنے والے فنڈز کا جائزہ لیا جارہا اور میرا خیال ہے کہ اس کی تعداد کم ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جب میں سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کا سربراہ تھا تو میں نے اس معاملے پر بہت جافشانی سے کام کیا لیکن کامیابی نہیں ملی، تاہم انہوں نے محتاط رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے دل میں ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس معاملے کی کتنی اہمیت ہے اور ہم اسے حاصل کرسکتے ہیں‘۔
ایوان میں ایران، شمالی کوریا اور دیگر اہم معاملات پر تبادلہ خیال کے دوران کانگریس کے رکن بریڈ شیرمین نے پاکستان کا ذکر زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ایک ملک کے طور پر ہمارے لیے کافی اہمیت رکھتا ہے اور مجھے امید ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سندھی زبان میں عوامی سفارتکاری کرے گا اور مجھے اس بات کی بھی امید ہے کہ آپ سندھ اور دیگر علاقوں میں گمشدگیوں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق پاکستانی رہنماؤں کے پاس جائیں گے‘۔
اس موقع پر ایک اور کانگریس رکن ڈانا روہرابیچر نے اس بات کی جانب نشاندہی کی کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے آئندہ سال کی بجٹ تجاویز میں پاکستان کے لیے امداد میں کوئی اضافہ نہیں دیکھنے میں آرہا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب تک اسامہ بن لادن کے معاملے میں مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہائی نہیں ملتی بیرونی امداد کی مد میں پاکستان حکومت کو کوئی رقم دینے کا جواز نظر نہیں آتا‘۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’ہمارے پاکستانی دوستوں نے افغانستان میں کمین گاہیں قائم کر کے اپنی دوستی ثابت کردی‘۔
واشنگٹن میں پاکستان مخالف گروپوں کے ساتھ کام کرنے والے کانگریس رکن ڈانا روہرابیچر نے جبری گمشدگیوں کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان میں صورتحال بدتر ہوتی جارہی ہے اور کراچی کے لوگوں، سندھیوں اور دیگر کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔
اس دوران گانگریس کے رکن کے اٹھائے گئے معاملات پر جواب دیتے ہوئے مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امریکی حکام کے ساتھ برا سلوک روا رکھا جارہا ہے، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا امریکی سفارتکاروں کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور ہمیں اسے حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔