ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔
بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبٹیز کے ڈائریکٹر پروفیسر عبدالباسط کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ اویلوئیشن کے پاکستان کے بارے میں اعدادوشمار کے مطابق ذیابیطس پاکستان میں معذوری کی ساتویں بڑی وجہ ہے اور 2005 سے 2016 کے درمیانی عرصے میں اس کے متاثرین میں 67 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005 کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
بروقت علاج سے ذیابیطس کے مریضوں کے اعضا اور جان بچائی جا سکتی ہے لیکن صحت کی غیرمعیاری سہولیات اور آگاہی کی کمی کے باعث اکثر علاج میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔
شالیمار ہسپتال کے سکینہ ڈائیبیٹیز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بلال نے کہا کہ پاکستان میں موجودہ طرز زندگی کے باعث لوگوں میں ذیابیطس کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے لوگ گھر پر ٹوٹکے آزما کر اپنا علاج کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
ہمیں اس بات کی آگاہی پھیلانی چاہیے کہ زخم کا بروقت علاج نہ ہو تو وہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر مت ٹالیں، فوری علاج کروائیں۔
ذیابیطس سے متعلق آگاہی کے لیے قومی سطح پر کچھ ڈاکٹرز دور دراز علاقوں میں جا کر ضروری معلومات اور فری چیک اپ کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں لیکن یہ کافی نہیں اور یہ مسئلہ صرف دیہات تک محدود نہیں۔