پاکستانی انتخابات اور فوج کاایجنڈا – برزکوہی بلوچ

431

پاکستانی انتخابات اور فوج کاایجنڈا

برزکوہی بلوچ

مقبوضہ بلوچستان پر قابض ریاست پاکستان کے صدر ممنون حسین نے باقاعدہ طور پر یہ اعلان کردیا ہے کہ 25 جولائی 2018 کو پاکستان میں عام انتخابات ہونگے۔

پاکستان کے باقی علاقوں سے برعکس مقبوضہ بلوچستان میں مختلف پارلیمانی پارٹیوں میں جوڑ توڑ اور الیکشن کیلئے سرگرمیاں جاری ہیں، باقی علاقوں کے برعکس بلوچستان میں صورتحال کافی مختلف ہے، ایک تو خوف کاماحول موجود ہے۔ دوسری طرف اکثریت بلوچوں کو پاکستانی نام نہاد الیکشن سے کوئی سروکار نہیں ہے، اگر عام طور پر کوئی بلوچ حصہ بھی لے رہا ہے۔ وہ بھی مجبوری اور خوف کی وجہ سے کہ پاکستانی خفیہ اداروں کو یہ اطلاع نہ ہو کہ فلاں شخص الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا ہے اوراس کی مخالفت کررہا ہے اور اس کا تعلق آزادی پسندوں سے ہے، ورنہ اس شخص کو اسی دن غائب کردیا جائیگا، ایسے ہزاروں کی تعداد میں واقعات موجود ہیں۔

اب اس حقیقت میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد آج تک پاکستانی انتخابات چھوٹے سے لیکر بڑے سرگرمیوں تک  مکمل طور پر پاکستانی خفیہ اداروں کا دسترس ہے۔ ان کے مرضی کے بغیر کوئی ذرہ بھی نہیں ہل سکتا۔ وہ کسی کو ہرائیں، کسی کو جتوائیں، کسی کو وزیر، کسی کو مشیر بنائیں، یہ سب پاکستانی خفیہ اداروں کی کارستانیاں ہیں۔

اگر سب چیزیں خفیہ ادارے کرواتے ہیں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیوں چاہتے ہیں کہ عوام  نام نہاد انتخابات میں حصہ دار ہوں؟ مختلف مقاصد کے علاوہ اہم مقصد دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ پاکستان میں آمریت نہیں بلکہ جمہوریت ہے، کیونکہ آمروں اور آمریت کو بھی فوج اور خفیہ ادارے نازل کرتے ہیں اور وزیر، سینیٹر ایم این اے، ایم پی اے، صدر سے لیکر وزیراعظم تک سب کو منتخب بھی فوج اور خفیہ ادارے کرواتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ٓآمریت کو بلا جھجک دوٹوک انداز میں فوج اور خفیہ ادارے سرعام لاکر لاگو کرتے ہیں اور وزیروں کو فوج اور خفیہ ادارے، عوامی لبادے میں لپیٹ کر منتخب کرتے ہیں۔ دونوں میں معمولی فرق بھی نہیں، فرق صرف وردی اور بغیر وردی کی ہے۔ سب کے سب پاکستان آرمی کے ملازم و عہدیدار ہیں، پرویز مشرف ہو، نواز شریف ہو، بھٹو ہو، ڈاکٹر مالک ہو، ثناء زہری ہو، قدوس بزنجو ہو کورکمانڈر ہو آئی ایس پی آر سب کے سب پاکستان آرمی اور خفیہ اداروں کے عہدیدار اور اہلکار ہیں، بس صرف فرق وردی کا ہے۔

یعنی عوام کو الیکشن میں شریک کرن کی اہم وجہ یہی ہے کہ فوج اپنے سویلین ملازموں کے اصل چہروں کو عوامی پردوں میں چھپانا چاہتا ہے اور دوسرا مقصد آخر کیوں یہ پارلیمانی سویلین فوجی نمائندے پاکستانی الیکشن کے دوران اتنا سرگرم ہوتے ہیں۔ عوام سے رابطہ اور خیرخواہی دکھاتے ہیں اور ڈرامہ بازی کرتے ہیں، جبکہ ان کو فوج اور خفیہ ادارے ویسے منتخب کرتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتا ہے فوج باقاعدہ اپنے سویلین نام نہاد مذہبی، قوم پرست و دیگر پارلیمانی پارٹیوں اور نمائندوں کو یہ آرڈر دیتا ہے کہ وہ عوام میں جائیں اورفوج کو دِکھائیں کے عوام میں انہیں کتنا اثرورسوخ ہے۔

 

اسی وجہ سے الیکشن نزدیک آتے ہی، دن رات گلیوں اور سڑکوں کا طواف شروع کردیتے ہیں تاکہ اپنے فوجی آقاؤں کو کچھ دکھاسکیں، اس دفعہ میراوزیری اور سینٹ کا نمبر آجائے، انتخابات میں سویلین فوجی نمائندوں کی سرگرمیوں کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے، مختصراً پاکستانی الیکشن کا سیدھا سادہ حقیقت اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

 

اب بلوچستان میں پاکستان کے نام نہاد الیکشن کیسے ہونگے؟ کیس ہونے چاہیئے؟ یہ خاص طور پر بلوچ قوم اور آزادی پسند مسلح اور غیر مسلح تنظیموں پر منحصر ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے یا شعور و آگاہی کے ذریعے یعنی موثر اظہار کس طریقے اور ذریعے سے پورے دنیا کو یہ باور کرائینگے کہ پاکستانی نام نہاد الیکشن سے بلوچ قوم کو کوئی سروکار نہیں، بلوچ صرف اور صرف اپنی قومی ریاست کی تشکیل آزادی چاہتے ہیں۔

 

ایک تو یہ بہت اہم اور ضروری ہے کہ دشمن یا قبضہ گیر کوئی بھی پروگرام مخصوص دن یعنی 14 اگست، 28 مئی، 6 ستمبر کشمیر ڈے یا پھر الیکشن کے دن بلوچ مسلح تنظیموں کو ان پروگراموں کو سپوتاژ کرنے کیلئے ضرور کوئی کاروائی کرنا چاہیئے تاکہ دنیا کو یہ پیغام ملے کہ ان پاکستانی پروگراموں سے بلوچوں کا تعلق نہیں ہے، یہ ضروری اور اچھا قدم ہے۔

 

لیکن گوریلا جنگ کابنیادی فلسفہ اور اصول یہ ہے کہ جب دشمن الرٹ اور بیدار ہو تو اس وقت گوریلہ کو دو قدم پیچھے ہٹنا چاہیئے، جب دشمن خواب غفلت میں ہو یا جہاں کہیں اس کا کمزور پہلو اور حصے ظاہر ہوں، وہاں شدت کے ساتھ حملہ آور ہونا چاہیئے۔

 

پھر کیا پاکستان گذشتہ عام انتخابات اور بلوچستان کی صورتحال اور آزادی پسند قوتوں کی موقف، مقاصد اور ارادوں کو مدنظر رکھ کر اس دفعہ پہلے سے زیادہ الرٹ اور تیاری میں نہیں ہوگا؟ (قطع نظر وہ ابھی سے ظاہر ہے کہ الیکشن سے پہلے سب کے سب کا صفایا کرنے کی پالیسی)اگر تیاری میں ہے اورہائی الرٹ ہوگا اور الیکشن سے کچھ دن پہلے الیکشن کے دن دشمن پورا ہائی الرٹ اور بیدار ہوگا تو اسی دن مسلح کارروائی کرنا ضروری رسک، ہمت، بہادری، غیرت، تقاضہ یا پھر گوریلا جنگ کے بنیادی اصولوں اور فلسفے سے روگردانی؟

 

اس پر سوچنا چاہیئے، سب کا جلدی متفق ہونا بھی غلط اور جلد بازی میں مخالفت کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ وقت و حالات کے تناظر میں نئے طریقے سے بلوچ قوم کو مزید آگاہی و شعور فراہم کرنا چاہیئے کہ وہ کسی بھی صورت الیکشن کا حصہ نہیں بنیں۔ مسلح تنظیمیں صرف الیکشن کے دن کا انتظار کرنے کے بجائے، آج ہی سے جہاں بھی موقع ملے، پاکستانی الیکشن میں مجبوری اور نادانی سے ہٹ کر جو بھی دانستہ شعوری اور خفیہ اداروں کی ایماء پر جس طرح جیسے بھی پاکستانی الیکشن میں حصہ دار اور سرگرم ہوگا، وہ بلوچ دشمنی میں شمار ہوگا ۔